کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 34
جذبات پیدا کر رہے ہیں ۔ ہمارے پبلک سکولوں میں بچوں پر پابندی ہے کہ وہ ہر صورت میں غیر ملکی ’یونیفارم‘ پہن کر آئیں ۔ بچوں کے ’ریڈی میڈ‘ ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹریاں صرف پتلون اور شرٹ بناتی ہیں ۔ مائیں اپنے بچوں کو مقامی لباس میں دیکھنا پسند نہیں کرتیں ۔ بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ پتلون شرٹ میں زیادہ ’سمارٹ‘ لگتے ہیں ۔ شروع ہی سے قومی لباس کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت پیدا کی جاتی ہے۔
قارئین کرام! یہ تو ہماری بدلتی ہوئی سماجی اقدار اور تہذیبی بیگانگی کے چند نمونے ہیں ورنہ تو ہماری ثقافت اور تہذیب ومعاشرت کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اس طرح کی مثالیں تلاش نہ کی جاسکیں ۔ ذرا غور فرمائیے، اس کے اسباب کیا ہیں ؟ آخر ہم سیاسی آزادی مل جانے کے بعد بھی اپنے آپ کو یورپ کی تہذیب کی اس مہمل تقلید کا مکلف کیوں سمجھتے ہیں ؟ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے تہذیبی تشخص سے محروم کرکے ہمیں ’کلون‘ بننے پریوں مجبور کر دیا ہے کہ ہمیں اپنا چہرہ ہی بیگانہ لگتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم جس فکری وتہذیبی غلامی کا شکار ہیں ، وہ بالآخر ہمیں سیاسی آزادی کے ثمرات سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دے گی۔وہ قوم جو انگریز کے سیاسی استعمار کے خلاف سینہ سپر ہوگئی تھی، آج مغرب کی ثقافتی آمریت اور تہذیبی تسلط کو خوش دلی سے کیونکر قبول کئے ہوئے ہے۔ یہ سوال غور طلب ہے!!
۱۱/ستمبرکے بعد امریکہ اور یورپ سے پاکستانی خاندانوں کی اچھی خاصی تعداد ’وطن مالوف‘ کی طرف مراجعت پرمجبور ہوگئی ہے۔ یہ افرنگ زدہ گھرانے تہذیب کے ’وائرس‘ کو بھی ساتھ لے آئے ہیں جس سے لاہور جیسے شہر میں تمدنی نقالی کی وبا پھوٹنے کا خطرہ محسوس کیا جارہا ہے۔ ان خاندانوں کی صاحبزادیاں جو یورپ میں عادتاً جینز اور مغربی لباس میں ملبوس رہتی تھیں ، پاکستان آنے کے بعداِسی لباس سے چمٹی ہوئی ہیں ۔ لاہور کے جدید تعلیمی اداروں ، پارکوں اور فیشن ایبل بازاروں میں ان افرنگ مآب صاحبزادیوں کی آزادانہ نقل و حرکت نے جدت پسند لاہوری خاندانوں کی لڑکیوں میں ثقاتی بیباکی کے رحجان کی مزید حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہی و جہ ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران لاہور میں لڑکیوں میں جینز پہننے کا جنون وبا
[1] ایسا شخص روزہ بھی رکھ سکتا ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔