کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 33
متعلق رٹ پٹیشن داخل کرنے سے خاص شغف ہے، نے ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی کہ عدالت ِعالیہ کے فاضل جج صاحبان کے لئے سیاہ شیروانی اور شلوار قمیص کی بجائے کوٹ پتلون، ٹائی کے علاوہ سر پر خاص برطانوی دور کا لباس پہننا ضروری قرار دیا جائے۔ کیونکہ اس طرح جج صاحبان زیادہ ’باوقار‘ نظر آئیں گے۔ سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس صاحب کا اخباری بیان نگاہ سے گزرا جس میں انہوں نے اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کے لئے برطانوی دور کے لباس کے دوبارہ اِحیا کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
میلسی ایک سول جج کے حوالے سے خبر نگاہ سے گذری جس میں انہوں نے ایک وکیل صاحب کو شلوار قمیص پر ’ٹائی‘ لگا کر حاضر ہونے کا حکم صادر فرمایا۔ (۱۳/فروری ۱۹۹۸ء )
بے حد تعجب کی بات ہے کہ جس لباس میں قائد اعظم کو کبھی الجھن محسوس نہ ہوئی، آج ہم اسے پہننے میں ’ہتک‘ محسوس کرتے ہیں ۔ پنجاب اسمبلی کی کاروائی کے دوران راقم الحروف کو قومی ومقامی لباس کی توہین کے دلخراش مناظر دیکھنے کو ملے۔ لودھراں سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی جو ہمیشہ چادر اور پگڑی پہن کر ایوان کی کاروائی میں حصہ لیتے، وہ جونہی ایوان میں داخل ہوتے تو ارکانِ اسمبلی اور گیلری میں بیٹھے صحافی اور سرکاری افسران ان کے لباس کے حوالے سے پھبتیاں کستے اور ان کے متعلق توہین آمیز جملے اُچھالتے، وہ ان کے ٹھٹھا مخول کا مرکز بنے رہتے۔ پنجاب اسمبلی کے اسی ایوان میں ۵۰برس تک نائب قاصد اور بیرے شیروانی اور لمبی پگڑی پہن کر ’ڈیوٹی‘ دیتے رہے ہیں ۔ انگریزوں نے ’پنجاب کی پگڑی‘ کی توہین کرنے کے لئے اسے چھوٹے درجے کے ملازمین کے سروں پر رکھوا دیاتھا۔ سنا ہے حال ہی میں بعض اراکین کے احتجاج کے نتیجے میں اس قومی فرد گذاشت کی تلافی کر دی گئی ہے۔ کوٹ پتلون میں ملبوس ایک شخص کو دیکھتے ہی لوگ اسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معزز شخص سمجھنے لگتے ہیں چاہے وہ جاہل مطلق اور عام درجے کا آدمی کیوں نہ ہو۔
ہمارے بچے ہمارے روشن مستقبل کے امین ہیں ۔ قومی اقدار، قومی ثقافت اور قومی لباس سے محبت پیدا کرنے کی بجائے ہم ان کے اندر اپنے قومی ورثے کے خلاف نفرت کے
[1] سوال چونکہ عام غیر مسلم عورت کے بارے میں ہے اور جواب میں صرف کتابیہ عورت کو سامنے رکھا گیا ہے جواب میں اس امر کی وضاحت ہونی چاہیے تھی کہ کتابیہ کے علاوہ دیگر غیر مسلم خواتین سے نکاح مطلقاً حرام ہے ۔جیسا کہ آنے والے سوال کے جواب میں تصریح ہے۔ (مدنی)