کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 32
انگریزی میں گفتگو فرماتے تو مجلس میں موجود ہر شخص حسرت ویاس سے ان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا اور دل ہی دل میں انگریزوں کا ممنونِ کرم بھی ہوتا کہ ان کے درمیان رہ کر پاکستان کا ایک ادنیٰ سا فرزند اس ’علمی کمال‘ اور لیاقت کے درجے پر فائز ہو گیا ہے۔ اور تو اور اچھے خاصے پڑھے لکھے حضرات اس سے مرعوب تھے۔ ہمارے ہاں انگریزی بول لینے کو ہی علم کی معراج سمجھا جانے لگا ہے اور ایک جاہل اور عالم فاضل کے درمیاں حد ِفاصل بھی انگریزی زبان ہی رہ گئی ہے۔ آپ ایم اے کرلیں تو کیا ہوا، جب تک انگریزی زبان میں قدرت حاصل نہیں ہوگی تو ’پڑھے لکھے جاہل‘ ہی رہیں گے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ذرا آپ گفتگو میں شستہ اُردو کی تراکیب، کچھ محاورات کا استعمال کریں گے، تو سننے والوں کا ذوقِ سماعت اور نازک طبعی اس کو برداشت نہیں کر سکے گی، فوراً ہی آپ پر ’مشکل گوئی‘ کا الزام لگا کر آپ کی ثقیل اُردو سننے سے معذرت طلب کی جائے گی، اگر خیر سے کہیں آپ انگریزی زبان کے کچھ رٹے رٹائے خوبصورت جملے گفتگو میں لے آئیں ، تو آپ کی بات بے حد خشوع وخضوع سے نہ صرف سنی جائے گی بلکہ آپ کو انگریزی کا عالم بھی سمجھا جانے لگے گا۔طبقہ اشراف کا یہ لسانی شغف ہمارے قومی وقار کے ماتھے پر بدنما داغ بن چکا ہے۔ لباس کے معاملے میں ہماری غلامی کا سفر افلاک کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ قومی لباس سے حقارت آمیز برتاؤ اور مغربی آقاؤں کے لباس کو باعث ِفخر ومباہات سمجھنے کا معاملہ ہماری قومی اقدار کا مستقل حصہ بن چکا ہے۔ اس معاملے میں ہمیں قائد اعظم کے طرزِ عمل کی پیروی کا بھی ہرگز خیال نہیں ہے۔ قائد اعظم سے زیادہ فرنگی تہذیب کو قریب سے دیکھنے اور پھر اسے برتنے کا دعویٰ اور کسے ہو سکتا ہے۔لیکن برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے بعد آپ نے ۷۰برس تک استعمال کیا جانے والا فرنگی لباس ترک کر کے مستقل طور پر قومی لباس زیب تن فرمایا اور اس طرح تہذیبی طور پر اپنے ’آزاد‘ ہونے کا عملی ثبوت فراہم کیا۔ لیکن آج ہمیں اس طرح کے آزادی کے مظاہرے میں شخصی توہین اور وقار میں کمی دکھائی دیتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور کے ایک وکیل صاحب، جنہیں عدالت ِعالیہ میں مختلف اُمور کے