کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 31
ہم ’ترقی‘ کی اس منزل پر فائز ہیں کہ ہماری قومی شاہراہوں پر ڈرائیور حضرات کے لئے ہدایات بھی بزبانِ انگریزی ہی درج کی جاتی ہیں ۔ مری سے ’پتریاٹہ‘ جاتے ہوئے ہمیں عجیب اُلجھن کا سامنا کرنا پڑا، راستے میں رفتار آہستہ کرنے اور خطرناک موڑ کے متعلق نشاندہی کی سب ہدایات فصیح انگریزی زبان میں درج تھیں لیکن ہماری گاڑی کا ڈرائیور اَن پڑھ تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے یہ شرط آخر کیوں نہ رکھی گئی کہ اس پر صرف انگریز خواتین وحضرات ہی گاڑی چلا سکتے ہیں ۔ میں نے اپنے ہم سفر سے دریافت کیا کہ آخر اس سڑک پر اُردو میں ہدایات کیوں تحریر نہیں کی گئیں ۔ ان کا جواب سن کر میں اپنے سوال پر شرمندہ ہوا، فرمایا :’’آخر کچھ باہر کے ملکوں کے لوگ بھی یہاں آتے ہیں ، ان کی سہولت کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔‘‘ گویا مقامی ڈرائیوروں کو ان ہدایات کی ضرورت نہیں ۔ ہم اپنے بین الاقوامی ہونے کا مصنوعی تاثر دینے کے مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔
ذرا قریبی ’اخبار سٹال‘ پر کچھ دیر رک کر آپ اخبارات اور رسائل کے ناموں کو غور سے پڑھئے، کئی ایسے اخبارات اور رسالہ جات پر آپ کی نگاہ پڑے گی، جو چھپتے تو اُردو میں ہیں لیکن ان کے نام انگریزی زبان میں رکھے گئے ہیں ۔
ہماری قوم انگریزی تلفظ اور ادائیگی کے عشق میں مبتلا ہوتی جارہی ہے، انگریزی کے ساتھ ساتھ اگر اُردو کو بھی انگریزی کے لہجے میں ادا کریں گے، تو پھر آپ کے ’ماڈرن‘ ہونے پر شاید ہی کوئی شک کا اظہار کرے ۔چند منٹ اگر بعض نئے ریڈیو چینلز کو توجہ سے سنا جائے تو ایسی عجیب وغریب اُردو زبان سے آپ کا واسطہ پڑے گا جس کا کم وبیش ہردوسرا جملہ چند ایک انگریزی الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر انگریزی الفاظ کو اُردو ترکیب میں بیان کرنے کے بعد، مسلسل انگریزی میں بولتے چلے جانا اب علمی مکالمہ کی پہچان بن چکا ہے۔میں اپنے ایک ملنے والے کا حوالہ دینا پسند کروں گا جو میٹرک کے امتحان میں چار دفعہ ناکام ہونے کے بعد کسی طریقے سے انگلینڈ جانے میں کامیاب ہوگئے، وہاں کافی عرصہ تک ایک ہوٹل میں برتن مانجھتے رہے، بعد میں ’ترقی‘ کی منازل طے کرتے کرتے بالآخر ٹیکسی ڈرائیور کے ’عہدۂ جلیلہ‘ پر فائز ہوگئے۔ کچھ عرصے کے بعد وطن واپس تشریف لائے، زبان سکیڑ سکیڑ کر اور لہجہ بنا بنا کر جب