کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 30
بازار سے گذر رہے ہیں تو پھر یہ نقص آپ کے محسوسات میں ہے، ورنہ دکانداروں نے تو آپ کی سہولت کے لئے بے حد بلیغ انگریزی میں اپنی دکانوں کے ماتھوں پر بورڈ آویزاں کیے ہوئے ہیں ۔
اب ذرا راہ چلتے ہوئے پرائیویٹ سکولوں کے بورڈوں پر نگاہ کیجئے، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس عرق ریزی سے ہمارے ان ’ماہرین‘ تعلیم نے انگریزوں کے ناموں کو آپ کے ذوقِ مطالعہ کے لئے منتخب کیا ہے۔ برطانیہ میں تو کیمبرج، آکسفورڈ، گرامرجیسے ادارے شاید ایک ہی جگہ ہوں گے لیکن ہمارا کوئی شہر ان سے محروم نہیں ہے۔ سکولوں کو کامیابی سے چلانے کے لئے نمایاں طریق پر ’انگلش میڈیم‘ کو مشتہر کرنا ضروری ہے،کیونکہ ہماری قوم ’انگلش میڈیم‘ کے علاوہ کسی بھی سکول کو معیاری تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔اور اب تو سکولوں میں آکسفورڈ سے کم کسی نصاب کے ذریعے تحصیل علم کو بھی مشکوک خیال کیا جاتا ہے۔ ہرپبلک سکول میں امپورٹڈ نصابی کتب ہی تعلیمی معیار کی واحد ضمانت ہیں ۔
شادی بیاہ کے متعلق عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں مقامی ثقافت اور روایات کی پاسداری کی جاتی ہے۔ لیکن آپ یہاں کے فائیو سٹار ہوٹلوں ، شادی گھروں کا سروے کیجئے آپ کو انگریزی باجوں کے علاوہ دلہا موصوف بھی انگریزی لباس میں جلوہ افروز دکھائی دیں گے۔ معاملات طے کرتے وقت دیگر شرائط کے ساتھ لڑکی والوں کی طرف سے یہ شرط بھی عائد کی جاتی ہے کہ دولہا میاں کا کوٹ پتلون میں ہونا ضروری ہے، ورنہ ان کے سماجی وقار کو شدید دھچکا لگے گا۔ کئی ایسے دولہاؤں کی حالت ِزار پر ترس کھانے کو جی چاہتا ہے جنہیں شادی کے موقع پر پہلی مرتبہ انگریزی لباس زیب تن کرنے کے جان گسل مرحلے سے گذرنا پڑتا ہے، ان میں سے بعض تو جاہل مطلق ہوتے ہیں اور باراتیوں کی اکثریت ان کے اس ’علمی مرتبے‘ سے واقف بھی ہوتی ہے لیکن انہیں ان پابندیوں کا خیال بہر حال رکھنا پڑے گا ورنہ معاشرے میں ناک اونچی کیسے رہ سکے گی۔ ہمارے ایک دوست کے سسرال والوں نے یہ عجیب شرط بھی لگائی کہ دولہا کے ساتھ ساتھ باراتی بھی حتیٰ الامکان کوشش کریں کہ کوٹ پتلون پہن کر آئیں تاکہ محلے والوں پر رعب پڑ سکے۔