کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 29
تو صورتحال اس قدر المناک اور کرب انگیز نہیں تھی۔ یہاں تو المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے ادنیٰ طبقات جو ہر معاشرے میں بالا طبقات کے اثرات سے محفوظ رہتے ہوئے مقامی ثقافت کو اپنا کر اس کے تعمیری ارتقا کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ، وہ بھی ذہنی محکومی کے سرطان سے محفوظ نہیں رہے۔ یہ کوئی انکشاف نہیں ہے، عام مشاہدے کی بات ہے، جس کی تصدیق کے لئے کسی افلاطونی فلسفہ طرازی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ بر صغیر کے سماجی اور روایتی نظام نے بعض طبقوں اور پیشوں پر ’حقارت‘ کا ٹھپہ لگایا ہے حالانکہ اسلام میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہندوستانی معاشرے کے ان مطعون اور حقیر پیشوں سے منسلک خاندانوں کو ’کمی کمین‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ فکری محکومیت کا یہ عالم ہے کہ اب وہ بھی اپنے کاروبار اور پیشوں کو فرنگی لبادہ اوڑھنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں ۔ آپ پورا شہر گھوم جائیے آپ کو کسی بھی ’نائی‘ یا حجام کا بورڈ دکھائی نہیں دے گا، ہر جگہ ’ ہیرڈریسرز، باربرز اوربیوٹی پارلرز کے خوش رنگ بورڈ دکھائی دیں گے۔ پورے لاہور میں آپ کو ’درزی‘ کہیں نہیں ملے گا، البتہ ’ٹیلرز‘ ہر گلی کوچے میں کثرت سے مل جائیں گے۔ ’درزی‘ ایک ایسی جنس نایاب ہے جو مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں ’دھوبی‘ کا بورڈ دیکھنے کو نگاہیں ترس گئی ہیں ، ہر طرف ’ڈرائی کلینرز‘ ہی پھیلے ہوئے ہیں ۔ اس شہر میں کوئی گویا/ میراثی باقی نہیں رہا، ان کی جگہ آرٹسٹ، فنکار اور گلوکاروں نے لے لی ہے۔ کام کی اصلیت کوئی معنی نہیں رکھتی، یہاں تو نام چلتا ہے۔ اب ماشاء اللہ سب ’مشرف بہ مغرب‘ ہوگئے ہیں اور اپنے آپ کو عزت واحترام کا بجا طور پر مستحق سمجھتے ہیں ۔ اب ’کپڑے کا بازار‘ اور ’بزاز‘ صفحہ ہستی پر موجود نہیں ہیں ، ان کی جگہ پر مارکیٹس اور کلاتھ مرچنٹس اُگ آئے ہیں ۔ آپ بھائی انگریزی زبان کے اعداد وشمار میں نہیں چکائیں گے تو دکاندار پر آپ کا تاثر ایک جاہل مطلق کاسا ہی پڑے گا۔ اگر آپ کو انگریزی زبان نہیں آتی تو کم از کم دکاندار پر یہ راز منکشف نہ ہونے دیں کہ آپ اس سے یکسر نا بلد ہیں ورنہ آپ لمحوں میں اس کی نگاہوں میں گر سکتے ہیں ۔ مال روڈ، لبرٹی مارکیٹ اور انار کلی کا سرسری جائزہ لیجئے، اگر ان میں گھومتے ہوئے آپ یہ محسوس نہیں کرتے کہ آپ کسی لندن کے