کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 28
وحشمت کی اس ساری جدوجہد کا زبردست المیہ یہ ہے کہ وہ ’فنا فی الاقا‘ کا مقام حاصل نہیں کر سکتے اور ان کے آقا ان کو اس سارے انجذاب اور تقلید کے باوجود ایک محکوم، گھٹیا اور غیر مہذب قوم کا فرد سمجھتے ہیں اور ہمیشہ ان سے غلاموں جیسا برتاؤکرتے ہیں ۔ آقا اپنی نسلی اور تہذیبی برتری میں محکوم قوم کو کسی بھی صورت میں شراکت کا حق نہیں دیتے، البتہ ان کو کچھ مراعات عطا کر دی جاتی ہیں تاکہ وہ غالب قوم کے دست وبازو بن کر اس کے سیاسی اقتدار میں طوالت کا ذریعہ بنے رہیں ۔
اس تہذیبی ’ملاپ‘ کے تیسرے دور میں بھی اجنبی ثقافت سے نفرت کا احساس بالکل ختم نہیں ہوجاتا۔ اب بھی ایک محدود طبقہ اس کو اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ وہ اس کے خلاف برابر جدوجہد کرتا رہتا ہے اور لوگوں کو بتاتا رہتا ہے کہ تہذیبی غلامی کے کیا سنگین نتائج برآمد ہوں گے لیکن ان کی آواز ’صدا بہ صحرا‘ ثابت ہوتی ہے۔ جن لوگوں کے ضمیر میں تہذیبی محکومی کا نشہ دوڑ چکا ہوتا ہے، وہ انہیں جاہل، خبطی اور رجعت پسند اور معاشرے کے ایک ناکام طبقے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ذرائع ابلاغ میں ان کی کھل کر تحقیر کی جاتی ہے، ان کا تمسخر اڑانے اور انہیں استہزا کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا جاتا، نوجوان نسل کے دماغ میں یہ بات اُنڈیلی جاتی ہے کہ یہی وہ طبقہ ہے جو اس قوم کو ترقی یافتہ اور خوشحال ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا اور یہی وہ طبقہ ہے کہ جس کی ہٹ دھرمی اور غیر لچک دار رویے سے آج ہم اس منزل پر پہنچے ہیں کہ ترقی یافتہ قوموں میں ہمارا کہیں بھی شمار نہیں !!
ذرا غور فرمائیے؛آج ہم غلامی کی کس منزل پر فائز ہیں ، پہلی دوسری یا آخری منزل؟ اگر آپ کو پاکستانی قوم کے مقام کا تعین کرنے میں کسی قدر تذبذب کا سامنا ہے تو ہم آپ کے گوش گزار کیے دیتے ہیں کہ ہم آج غلامی کی آخری منزل پر فائز ہیں اور اس میں استقامت کے حصول کے لئے اپنی ساری صلاحتیں کھپا رہے ہیں ۔ ذہنی محکومی کی بدترین شکل وہ ہوتی ہے کہ جس کے اثرات معاشرے کے مراعات یافتہ محدود طبقے سے نکل کر معاشرے کے ادنیٰ طبقات کی عظیم اکثریت کے ذ ہنی ونفسیاتی ڈھانچے میں سرایت کر جائیں ۔ صرف جدید تعلیم یافتہ، اہل ثروت، صنعت کار، بیورو کریٹس اور جاگیردار طبقے کی حالت میں تبدیلی کی بات ہوتی