کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 27
رہتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مراعات یافتہ طبقے اور اس کے حواریوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے، وہ ملکی وسائل اور حکومتی اداروں پر اپنا تسلط اس طرح جمالیتے ہیں کہ عام افراد کے لئے ان سے تعاون کئے بغیر نہ تو ملازمتوں کا حصول ممکن رہ جاتا ہے اور نہ ہی معاشی میدان میں ترقی کے امکانات باقی رہ جاتے ہیں ، اس لئے چار وناچار ان کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔ پھر حکومتی مشینری کا جبر واستبداد، حکومتی ذرائع ابلاغ کا جارحانہ پراپیگنڈہ، تعلیمی اداروں اور دیگر حکومتی شعبہ جات کے توسط سے حکومتی نقطہ نظر کی وسیع پیمانے پر تشہیر اچھے خاصے صاحب ِعقل افراد کی مقامی ثقافت سے وابستگی اور اس پر اعتماد کی چولوں کو ڈھیلا کر دیتی ہے۔ وہ شدید فکری اور تہذیبی کرب سے گزرنے کے بعد بالآخر غالب ثقافت کے سامنے نہ صرف ہتھیار ڈال دیتے ہیں بلکہ اس کو اپنانے میں خوشی بھی محسوس کرتے ہیں ۔ یہاں سے قوموں کے تہذیبی تصادم کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے۔ بلکہ اسے تصادم کی بجائے ’ملاپ‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ عملاً ’تصادم‘ ملاپ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔اس دور کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ محکوم قوم کو اپنا تہذیب وتمدن اور طرزِ معاشرت، فکری منہاج اور سماجی اقدار دوسرے درجے کی چیزیں محسوس ہوتی ہیں اور وہ انہیں اپنی ذہنی ومادّی ترقی کے راستے میں رکاوٹ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ غالب قوم کی ثقافت اور ان کے تمام تہذیبی اداروں سے لگن اور چاہت کا گراف اونچا ہوجاتا ہے۔ ان کے قوانین، سماجی اقدار، سیاسی ادارے اور افراد ایک اعلیٰ اور برتر تہذیب کے مظہر دکھائی دیتے ہیں ۔ ان میں یہ احساس جاگزیں ہوجاتا ہے کہ ان کی غلامی کی اصل وجوہات ہی یہ ہیں کہ وہ اوران کی تہذیب وثقافت اور تمدن ایک فرسودہ، دقیانوسی اور رجعت پسندانہ معاشرے کی ثقافت کے مظاہر ہیں ، جن کی ترویج ان کی ترقی کے لئے سم قاتل ہوگی۔ وہ مسلسل اس نفسیاتی خلجان میں مبتلا رہتے ہیں کہ اپنے اندر نشست وبرخاست، بول چال، لین دین، تحریر وتقریر، معاملات وتعلقات، لباس وپوشاک، کھیل وتفریح کے معاملے میں اپنے آپ کو آقاؤں کے رنگ میں ڈھالنے کی شعوری وغیر شعوری کاوش کرتے رہتے ہیں ۔ آقاؤں کی محفل میں باریابی کو اپنے لئے باعث ِافتخار اور اعزاز سمجھتے ہیں اور ان کی طرف سے التفات ملنے پر پھولے نہیں سماتے۔ ان کی حصولِ جاہ