کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 26
طور پر تجزیہ کرنا چاہئے۔ آخر ہماری اس فکری محکومی اور ثقافتی مرعوبیت کے اسباب کیا ہیں ؟ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب دو تہذیبوں اور قوموں کا سیاسی سطح پر تصادم ہوتا ہے تو پہلے عرصے میں غالب قوم محکوم قوم پر اپنا سیاسی اقتدار مستحکم کرنے کے لئے تہذیبی تسلط قائم کرنے کی سر توڑ کوشش کرتی ہے اور محکوم قوم اس استیلا کے خلاف شدید مزاحمت کرتی ہے، اسے اجنبی کلچر کی برتری کا احساس نہیں ہوتا بلکہ جارح کلچر سے اپنے ثقافتی اور تہذیبی ڈھانچے کو محفوظ رکھنے کا احساس شدت سے اجاگر ہوتا ہے، اور اس کے خلاف نفرت کے جذبات شدت سے پیدا ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس اولین مرحلے میں حاکم اور محکوم قوموں کے درمیان تہذیبی اختلاط زیادہ نہیں ہو پاتا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب غالب قوم کا سیاسی اقتدار طول اختیار کرتا جاتا ہے اور وہ تمام سیاسی ومعاشی اداروں اور ملک کے تمام تر وسائل پر قابض ہو جاتی ہے اور محکوم قوم کو معاشی استحصال اور جبر کے آہنی شکنجے میں کس لیتی ہے تو پھر محکوم قوم کے کچھ طبقات حوصلہ ہار جاتے ہیں اور آنے والے حکمرانوں کو ناگزیر حقیقت سمجھتے ہوئے ان سے سمجھوتہ کر لینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ، ان کی طرف سے دی گئی تعلیم حاصل کرتے ہیں تاکہ ملازمتوں کا حصول ممکن ہو سکے، اسی طرح تہذیبی تصادم کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے کہ جہاں محکوم قوم کی غالب اکثریت اپنی تہذیبی وسماجی اقدار سے چمٹی رہتی ہے اور غالب قوم کو پہلے ہی کی طرف غاصب اور اجنبی سمجھتی ہے، البتہ ایک اقلیت حاکم قوم کے ساتھ اقتدار میں شراکت کی خواہش کے تابع اپنے آپ کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیتی ہے اور انہیں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتی ہے۔ یہی وہ طبقہ ہوتا ہے جو حکمران طبقے کی طرف سے دی گئی مراعات سے بھرپور استفادہ کرتا ہے اور ایک منزل آنے پر ان کے دست وبازو کی حیثیت بھی اختیار کر لیتا ہے۔ وہ اپنا تعلق عوام الناس سے منقطع کرکے حکمران طبقے سے غیر مشروط وابستگی کی صورت میں جوڑ لیتا ہے۔ دو تین نسلوں کے بعد اس طبقے کی ذہنی ترقی اس طرح ہو جاتی ہے کہ وہ حاکم قوم کے کلچر کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور اسی کو پروان چڑھانے کے لئے مسلسل جدوجہد میں مصروف رہتا ہے۔ عوام کی اکثریت اس مراعات یافتہ طبقے کو استحصالی گروہ سمجھتی ہے اور اس سے متنفر