کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 101
زمین سے (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا کہ تم دونوں خواہ خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے۔ ان دونوں نے کہا کہ ہم بخوشی حاضر ہیں ۔‘‘
3. ﴿وَالسَّمَآئَ بَنَیْنَاھَا بِأَیْدٍ وَّإنَّا لَمُوْسِعُوْنَ﴾(الذاریات:۴۷)
’’آسمان کو ہم نے قوت سے بنایا اور یقینا ہم اس میں کشادگی کرنے والے ہیں ۔‘‘
مندرجہ بالا آیات میں سے پہلی آیت سے معلوم ہوا کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو جدا جدا کردیا۔ اب یہی بات جدید سائنس بھی تسلیم کرچکی ہے کہ کرۂ ارض ایک خوفناک حادثے کے ساتھ وجود میں آئی اور اسی حادثہ عظیمہ کو بگ بینگ (Big Bang) یا ’انفجارِعظیم‘ بھی کہا جاتا ہے۔
دوسری آیت میں جس چیز کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ شروع میں آسمان مکمل طور پر دھوئیں یا گیس کی شکل میں تھا جیسا کہ مشہور ایٹمی سائنسدان جارج گیمو لکھتا ہے کہ
’’کائناتی مکان(فضا) کثیر توانائی والی گاما شعاعوں (High Enrgy Gama Radiation) سے پرتھا… لیکن اس میں موجود مادّہ کا وزن مخصوص زمین سے بالا تر فضا کی ہوا کے برابر ہماری کائنات کی تخلیقی تاریخ کے پہلے گھنٹے کے بعد کائنات میں ۳۰ ملین سال تک کوئی خاص واقعہ نہیں ہوا۔ (اسی زمانے کے متعلق قرآن نے کہا کہ تمام آسمان دھوئیں یا گیس کی شکل میں تھا)
یہی مصنف مزید لکھتا ہے کہ ’’بنیادی چیز جس سے کائنات بنی، وہ ہائیڈروجن گیس تھی۔‘‘ (The Creation of the Universe, p.135)
تیسری آیت میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ کائنات میں مسلسل توسیع کا عمل جاری ہے اور اکثر سائنس دان بھی اس کی تائید کرتے ہوئے اس بات کوتسلیم کرچکے ہیں کہ ہرآن یہ کائنات پھیلتی اور وسیع ہوتی جارہی ہے۔ ہارون یحییٰ اپنی تصنیف ’قرآن رہنماے سائنس‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’۲۰ ویں صدی کی آمد تک دنیاے سائنس میں ایک ہی نظریہ مروّج تھا کہ کائنات بالکل غیر متغیراورمستقل نوعیت رکھتی ہے اور لامتناہی عرصہ سے ایسی ہی چلی آرہی ہے۔ تاہم تحقیق ومشاہدہ اور ریاضیاتی جانچ پڑتال جو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جاری تھی، اس سے انکشاف ہواکہ اس کائنات کا ایک نکتہ آغاز بھی تھا اور اس وقت سے یہ مسلسل پھیل رہی ہے۔ ۲۰ صدی