کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 100
سکتے ہیں جو زمین کے مختلف حصوں کو اسی طرح جوڑتے ہیں جیسے میخیں لکڑی کے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑتی ہیں ۔‘‘ (قرآن رہنمائے سائنس از ہارون یحییٰ، ص۱۲۲)
۱۹۸۷ء میں رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی مذکورہ بالا بین الاقوامی کانفرنس میں ایک امریکی سائنسدان نے قرآن مجید کی ان چند (مذکورہ) آیات (جن میں پہاڑوں کو میخیں کہا گیا) کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ۱۰۰ سال پہلے تک سائنس دانوں کا یہی خیال تھا کہ پہاڑ ایسے ہی ٹیلے ہیں جیسے ریت کے ٹیلے بن جاتے ہیں یا قدرتی طور پر مسلسل آندھی و طوفان کے نتیجے میں کسی جگہ مٹی، ریت اور پتھروں کا ڈھیر لگ جاتا ہے مگر اب جدید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ پہاڑ اگر ایک میل اونچا ہو تو اس کی جڑ کئی میل تک گہری ہوتی ہے۔ جس طرح میخ کا کچھ حصہ اوپر نظر آتا ہے جبکہ اس کا بڑا حصہ زمین میں ہوتا ہے۔
المختصر یہ کہ اس امریکی سائنس دان نے قرآن مجید کی ان آیات کو معجزاتی آیات قرار دیا کیونکہ ان آیات میں جن حقائق کو ۱۴۰۰ سال پہلے بیان کیا گیا ہے، سائنس دان ان حقائق تک پہنچنے میں اب کامیاب ہوئے ہیں ۔
3.تخلیق کائنات کے سائنسی مشاہدے
تخلیق کائنات کے سلسلہ میں قرآن مجید ہمیں جن حقائق سے آگاہ کرتا ہے، ان کا تذکرہ مندرجہ آیات میں موجود ہے:
1. ﴿أوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا أنَّ السَّمٰواتِ وَالاَرْضِ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَائِ کُلَّ شَئٍ حَیٍّ أَفَلاَ یُؤمِنُوْنَ﴾(الانبیاء:۳۰)
’’کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہم نے پانی کے ساتھ ہر زندہ چیز کو پیدا کیا۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے۔‘‘
2. ﴿ثُمَّ اسْتَوٰی إلَی السَّمَائِ وَھِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَھَا وَلِلاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْکَرْھًا قَالَتَا اَتَیْنَا طَائِعِیْنَ﴾(حم ٓالسجدۃ:۱۱)
’’پھر (اللہ تعالیٰ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ (آسمان) دھواں سا تھا۔ پس اسے اور