کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 9
دی کہ وہ آپ کو انسانوں سے ماورا مخلوق سمجھے اور ربّ تعالیٰ کا شریک بنانے پر آمادہ ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں شق القمر، واقعہ معراج اور قرآنِ کریم جیسے ابدی معجزہ …جس کی مثل ایک آیت بنا لانے کا چیلنج آج تک موجود ہے … نے قریش کو آپ کی طرف متوجہ کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ بہت سے صحابہ صرف قرآن کریم کی آیات سن کر آپ کی صداقت پر ایمان لے آئے۔اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی ہاشم سے ہونا، ابوطالب سے تحفظ ملنا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی مدبر اورمالدار خاتون کا شریک ِحیات ہونا،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسے عالی نسب یارِ غار اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جری و غیور ساتھی کا ملنا انہی ظاہری اسباب سے ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی دعوت کے کامیاب ہونے میں جہاں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور وحی کی صورت میں رہنمائی کا عمل دخل تھا، وہاں آپ کی اعلیٰ سیاسی بصیرت اور فہم و تدبر کا بھی خاصا حصہ ہے جو بہرحال اللہ تعالیٰ کی ہی عنایت ِخاصہ تھی۔ آپ نے حکمت وبصیرت سے ایسے فیصلے کئے اور متوازن پالیسیاں اپنائیں جنہوں نے چند ہی سالوں میں اسلام کو جزیرۃ العرب میں غالب کردیا۔ مثلاًمکہ میں دعوتی ذرائع محدود ہونے کے بعد اہل طائف اور پھر اہل مدینہ کو دین کا پیغام پہنچانا، مدینہ پہنچ کر انصار سے مؤاخات اور یہود سے معاہدے کرنا، نو مسلموں کی تالیف ِقلبی اور اسلام لانے کے بعد انہیں ویسا ہی ممتاز مقام دینا، اہل مکہ پر دباؤ ڈالنے کے لئے ان کے حلیفوں سے تعلقات کی استواری، صلح حدیبیہ کے ذریعے تجارتی ودعوتی راستوں کو کھولنے میں کامیابی اور فتح مکہ کے بعد عام معافی کے ذریعے غیرمسلموں کی تالیف ِقلبی وغیرہ شامل ہیں ۔
مکہ میں صبر وآزمائش کے تیرہ برس گزارنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اللہ سے دعا پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ وہ بیت اللہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی دعوت کی کامیابی کے لئے ربّ تعالیٰ سے اجتماعی فریاد کرتے رہتے بلکہ آپ نے اپنے صحابہ کو ہجرتِ حبشہ کا حکم دیا، خود کچھ عرصہ کے بعد ہجرتِ مدینہ کی۔ ان ہجرتوں سے قبل مدینہ سے آنے والی شخصیات سے آپ نے ملاقاتیں کیں ، بیعت ِعقبہ اولیٰ اور ثانیہ عمل میں آئیں ، مدینہ کی طرف آپ نے اپنے داعی بھیجے حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر اور حضرت رافع بن مالک رضی اللہ عنہ زرقی اسی دورکے داعی تھے جنہوں نے مدینہ