کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 8
’’لوط نے کہا کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا‘‘
حضرت لوط علیہ السلام کی اسی شکایت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا:
رحم اللہ لوطا کان یأوی إلی رکن شدید، وما بعث الیہ بعد نبیا إلا وھو فی ثروۃ من قومہ (صحیح جامع الصغیر:۳/۱۷۶، حدیث حسن)
’’اللہ تعالیٰ حضرت لوط علیہ السلام پر رحم فرمائے وہ مضبوط سہارے کے نہ ہونے پر افسردہ تھے۔ چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کو اس کی قوم میں ممتاز حیثیت عطا کئے بغیر مبعوث نہیں کیا‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قبیلہ قریش میں مبعوث کیا جوعرب کا بڑا معزز اور مرکزی قبیلہ تھا۔ قریش میں بھی آپ معزز ترین گھر انے خانوادہ عبدالمطلب میں تشریف لائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ سے ظاہری اَسباب میں سے اس امرکی دعا کی:
اللہم أعز الإسلام بأحب ہذین الرجلین إلیک بأبی جہل أو بعمر بن الخطاب
(ترمذی :کتاب المناقب ، باب فی مناقب عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب ؛ رقم۳۶۸۱)
’’اے اللہ ! ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ وتقویت عطا فرما۔‘‘
امام جوینی رقم طراز ہیں :
وما ابتعث اللہ نبیاً فی الأمم السابقۃ حتی أیدہ وعضدہ بسلطان ذي عدۃ ونجدۃ … ومن الرسل علیہم السلام من اجتمعت لہ النبوۃ والأید والقوۃ کداود وسلیمان صلوات اللہ علیہم (غیاث الامم:ص۱۸۲)
’’سابقہ اُمتوں میں اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو نہیں مبعوث کیا مگر ہیبت و جبروت والے سلطان سے اُسے تقویت بہم کی۔حتیٰ کہ بعض رسول ایسے بھی آئے جن کی شخصیت میں نبوت کے ساتھ قوت و سلطنت بھی مجتمع ہوگئی تھی مثلاً حضرت داؤد، سلیمان اور موسیٰ علیہم السلام‘‘
انبیاء کو دین حقہ کی تبلیغ و رسالت کے لئے نہ صرف قوم کے معزز لوگوں سے تقویت ملی بلکہ انہیں خرقِ عادت معجزات کا ملنا بھی ظاہری اسباب کے لحاظ سے ان کی قوت و تائید کے لئے تھا۔ ہرنبی ملنے والے معجزات کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف آسانی سے متوجہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے، حضرت عیسیٰ کے غیر معمولی معجزات نے تو آپ کو اپنی اُمت میں ایسی غیر معمولی حیثیت