کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 75
استمداد نہیں کیا گیا اور احتیاط کا دامن تھامے رکھا ہے۔ مگر شیخ کے بعد کے ادوار میں بعض شعراے عجم کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تخاطب اور ان سے امداد طلب کرنے کی روایت عام ہوگئی۔ مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ (م۸۹۸ھ) کی نعتوں میں اس قسم کی چیزیں اکثر ملتی ہیں جو قرآن وحدیث کی بنیادی تعلیم سے ہٹی ہوئی ہیں ۔ یہاں عام نعت پر بحث نہیں بلکہ محض شہر آشوب کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنا نقطہ نگاہ پیش کرنا مقصود ہے۔ اس لئے ان کے ایک شہر آشوب کے چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں جن میں وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ابتلا و مصائب کے پیش نظر استمداد کرتے ہیں ، یہ شہر آشوب دراصل آشوبِ ملت ِاسلامیہ ہے۔ علماء و صو فیا کی بدعملی اور بدعت طرازی پرمولانا دل گرفتہ ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح فریاد کرتے ہیں ؎ اے بہ سرا پردہ یثرب بہ خواب خیز کہ شد مشرق و مغرب خراب رفتہ ز دستیم برون کن زبرد دستی و بنمائے یکے دستبرد توبہ دہ از سرکشی ایام را باز خراز ناخوشی اسلام را افسر ملک از سردوناں بکش دامن دولت ز زبوناں بکش خامۂ مفتی کہ چو انگشت آز شدزپے لقمہ ربائی دراز واعظ پر گو کہ بہ پستیست بند پایہ خود کردہ زمنبر بلند صومعہ را قاعدہ تازہ کن رخت خرابات بہ دروازہ کن بدعتیاں را رہ سنت نمائے عزلتیاں را رہ عزلت نمائے خرقہ تزویر بصد پارہ کن جان مزور زتن آوارہ کن شعلہ فگن خرمن ابلیس را مہرہ شکن سبحہ تلبیس را ظلمت بدعت ہمہ عالم گرفت بلکہ جہاں جامہ ماتم گرفت کاش فتد ز اوج عروجت رجوع باز کند نور جمالت طلوع دیدہ عالم بہ تو روشن شود گل خن ہستی بتو گلشن شود (مثنوی تحفۃ الاحرار: ص۳۴، ۳۵،مطبوعہ۱۳۲۶ھ)