کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 74
کے تسلط میں چلے گئے اور اب بغداد میں عباسیوں کا آخری چراغ ٹمٹا رہا تھا جس کی حیثیت اس وقت تاتاری آندھیوں کے سامنے چراغِ رہگذر کی سی تھی۔ آخر ہلاکو نے بغداد پر یلغار کی تو اس زوال آمادہ سلطنت کا بوسیدہ محل زلزلے کے پہلے جھٹکے ہی میں زمین بوس ہوگیا۔ قتل و خون کا وہ بازار گرم ہوا کہ دجلہ کا پانی کئی دنوں تک سرخ بہتا رہا۔ شہر و دیہات زیرو زبر ہوگئے، کتب خانے، دارالعلوم اور مساجد ویران ہوگئیں اور پورے عالم اسلام کا سکون غارت ہوگیا۔ اس پر سعدی رحمۃ اللہ علیہ جیسا حساس شاعر اس طرح لب کشا ہوتا ہے۔ آسماں راہ حق بود گر خوں ببارد بر زمیں برزوال ملک مُسْتَعْصِم امیر المومنین اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم گر قیامت می بر آری سرز خاک سربرون آرو قیامت درمیان خلق بین نازنینان حرم را موج خون بے دریغ زآستاں بگزشت و مارا خون دل از آستیں دیدہ بردار اے کہ دیدی شوکت بیت الحرام قیصران روم سربر خاک و خاقاں برزمیں خونِ فرزندانِ عم مصطفی شد ریختہ ہم برآنجائے کہ سلطاناں نہادندے جبیں دجلہ خونناب است زیں پس گرنہد سربرنشست خاک نخلستان بطحا راکند باخوں عجیں باش تا فردا بہ بینی روز داد و رستخیز کز لحد با زخم خوں آلودہ برخیزد دفیں اس مرثیے یا شہرآشوب میں شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر گزارش کرتا ہے کہ آپ اپنی قبر سے باہر تشریف لائیں ٭اور دیکھیں کہ دنیا کے سر پر کیا قیامت گزر گئی ہے۔ نازنینانِ حرم خون میں نہا گئی ہیں ۔ آپ نے بیت الحرام کی شان و شوکت دیکھی تھی جہاں قیصر و خاقان بھی زمین پر بیٹھا کرتے تھے مگر آج وہ جگہ جہاں سلطانوں کے سرجھکا کرتے تھے وہاں مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زادوں کا خون بہا دیا گیا ہے۔ اس شہرآشوب کے تقریباً اٹھائیس شعر ہیں جن میں شاعر نے اس تباہی و ہلاکت پر خون کے آنسو بہائے ہیں ۔ البتہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف تخاطب کا انداز اختیار کیا گیا ہے کہیں ٭ اشعار میں اکثر نبی کریم سے مسلمانوں کی حالت ِزار پر استمداد کیا گیا ہے، جیسا کہ مقالہ نگار نے اشارہ بھی کیا ہے اور اس استمداد کے جائز نہ ہونے کے بارے میں اپنا موقف بھی انہوں نے ذکر کیا ہے۔ جن اشعار میں بالخصوص ایسے غلط عقائد موجود ہیں ، ان کے نیچے یا پہلو میں ایک لائن لگا دی گئی ہے تاکہ قارئین متوجہ رہیں ۔