کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 73
اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنگ ِجمل و صفین کے وقت حضرت کعب رضی اللہ عنہ بن زُہیر (م۴۲ھ) اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت (م۶۸ھ) جیسے عظیم نعت گو شاعر موجود تھے۔ بلکہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ تو واقعہ کربلاتک بھی ذی حیات تھے۔ مگر ان کے کلام میں اور خصوصاً نعتیہ قصائد میں آشوبِ ذات یا آشوبِ ملت کا ذکر دکھائی نہیں دیتا اور وہ بھی اس رنگ میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استمداد کیا گیا ہو۔ اس دور کا ایک بلندپایہ شاعر فرزدق سانحۂ کربلا کے ایام میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے کربلا کے راستے میں ملتا ہے اور اہل کوفہ کی مخالفانہ روش کی اطلاع دیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ واقعہ گزر جانے کے بعد اس کی طرف سے کوئی ’نعتیہ شہر آشوب‘یادگار نہیں ہے۔ البتہ اہل بیت کی منقبتیں اس سے ضرور منقول ہیں ۔ فارسی میں شہر آشوب فارسی میں سب سے پہلا شہر آشوب شیخ مصلح الدین سعدی رحمۃ اللہ علیہ (م۶۹۱ھ) کا مرثیۃ المستعصم ہے۔ مولانا شبلی لکھتے ہیں : ’’اس وقت تک مرثیہ کا عام انداز یہ تھا کہ اشخاص کا مرثیہ لکھتے تھے۔ قومی یا ملکی مرثیہ کا مطلق رواج نہ تھا۔ شیخ پہلا شخص ہے جس نے قوم اور ملک کا مرثیہ لکھا۔ عباسیوں کی سلطنت گو اب برائے نام رہ گئی تھی پھر بھی پانچ سو برس کی اسلامی یادگار تھی اور بغداد تمام اسلامی دنیا کامرکز تھا، اس لئے اس کا مٹنا قوم کا مٹنا تھا۔ اس بنا پر شیخ نے خلیفہ اور بغداد اور سلطنت کا مرثیہ لکھا۔‘‘ (شعرا لعجم: جلد۲/ ص۶۹) سقوطِ بغداد ساتویں صدی ہجری کا بلا شبہ ایک عظیم سانحہ تھا جس نے اسلامی سلطنت کا تاروپود بکھیر دیا۔ اگرچہ ا س وقت عالم اسلام ایک عرصے سے آشوب و ابتلا کا شکار تھا۔ سلطنتوں کی باہمی آویزش اور اقتدار کی طالع آزمائیوں نے صلیبی جنگوں کو ہوا دی تھی اور ہر طرف جدال و قتال کا منظر تھا۔ ادھر ایشیا کے شمال مشرق سے تاتاریوں کا طوفان ایک سیل بے پناہ کی طرح بڑھتا چلا آتا تھا۔ بخارا و سمرقند جیسے اسلامی مرکز اس کے سامنے تنکوں کی طرح بہ گئے۔ سلجوقی اور خوارزمی سلطنتیں دیکھتے ہی دیکھتے سرنگوں ہوگئیں ۔ ترکستان اور ایران تاتاریوں