کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 72
تصور نہیں کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ طلب کرسکیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی کوئی مدد کرسکیں ۔ اگر یہ صورت ہوتی تو ان مرثیوں کی ضرورت نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جوش و خروش ایک تاریخی حقیقت ہے اور اس پر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ اکبر کا خطبہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس لغزش کی اصلاح اور امت کے لئے عقیدے کی درستی کابہترین ذریعہ تھا۔ آپ کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا صدمہ اسی طرح تھا جیسے دیگر صحابہ کرام اور محبان و متعلقین ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا مگر اس صورتِ حال کو سنبھالنے کے لئے اور توحید پرست مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر رکھنے کے لئے آپ نے خطاب فرماتے ہوئے کہا : ’’أیہا الناس من کان یعبد محمدا فإن محمدا قد مات ومن یعبد اللہ فان اللہ حي لایموت‘‘ ’’اے لوگو! تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا، وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ تعالیٰ زندہ ہے جو کبھی نہیں مرتا۔‘‘ اور اس کے بعد قرآن پاک کی وہ مشہور آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إلاَّ رَسُوْلٌ…الایۃ﴾ (آل عمران:۱۴۴) جسے سن کر نہ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ بلکہ دوسرے لوگوں کے بھی شکوک و شبہات زائل ہوگئے۔ عربی میں بھی اگرچہ ’شہر آشوب‘ لکھے گئے ہوں گے مگر ’نعتیہ شہر آشوب‘ کا کوئی ایسا نمونہ ہمیں کئی ہجری صدیوں میں نہیں ملتا جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح استمداد کیا گیا ہو۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد مانعینِ زکوٰۃ اور مرتدین کا فتنہ اٹھتا ہے۔قتل وغارت کا سلسلہ اس میں بھی چلتا ہے مگر کہیں سے کوئی شاعر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس فتنے کے سد ِباب کے لئے مدد مانگتا نظر نہیں آتا۔ اس کے بعد ’فتنہ‘کی صورت میں جنگ ِجمل اور جنگ ِصفین برپا ہوتی ہیں اور بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کی نذر ہوجاتے ہیں ۔مزید آگے چل کر فتنہ و فساد کے سلسلوں میں کربلا کا سانحہ اور پھر بنواُمیہ کے ابتدائی دور کا طویل عرصہ شکست و ریخت کا منظر پیش کرتا ہے۔ مگر نعت میں ان سانحات کی صدائے باز گشت اس رنگ میں سنائی نہیں دیتی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فریاد کی گئی ہو۔