کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 70
پھر بھی تم شرک کرتے ہو۔‘‘ دعا کرنے یا مدد کے لئے پکارنے کا حکم قرآن میں بے شمار مقامات پر آیا ہے۔ اور غیر اللہ کو پکارنے پر وعیدیں بھی اسی انداز میں دی گئی ہیں مثلاً: ﴿لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لاَ یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیْئٍ﴾ (الرعد:۱) ’’اسی(اللہ) کو پکارنا برحق ہے اور جو لوگ اسے چھوڑ کر اوروں کو پکارتے ہیں ، وہ ان کی پکار کا کوئی جواب نہیں دیتے۔‘‘ بلکہ اس سلسلے میں خو د رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ملاحظہ ہو: ’’ومن لم یسأل ﷲ یغضب علیہ‘‘ (ترمذی :ج۲/ص۱۷۳) ’’جوشخص اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتا، اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہوتا ہے۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی بجائے دوسروں سے حاجت طلب کرتا ہے، اس کا یہ فعل اللہ تعالیٰ کی خفگی کا باعث بن جاتا ہے۔ ا س بنا پر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو اپنی مشکلات و مصائب میں پکارے اور اسی سے داد طلب کرے۔ نعتیہ رجحانات ؛ خیر القرون میں قرونِ اولیٰ میں ہمیں کوئی نعت و منقبت یا قصیدہ اس نہج پر دکھائی نہیں دیتا جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کو کسی نے پکارا ہو اور اپنی مشکلات کے حل کے لئے استدعا کی ہو۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اکابرین اُمت کے وہ نوحے ہمیں ملتے ہیں جن کو پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا صُبَّت علی مصائب لو أنہا صبت علی الایام عُدْن لیالیا ’’حضور کی جدائی میں وہ مصیبتیں مجھ پر ٹوٹی ہیں کہ اگر یہ دنوں پر ٹوٹتیں تو وہ راتوں میں تبدیل ہوجاتے۔‘‘ اغیر آفاق السماء وکورت شمس النہار و اظلم الازمان ’’آسمان کی پہنائیاں غبار آلود ہوگئیں اور دن کا سورج لپیٹ دیا گیا اور زمانہ تاریک ہوگیا‘‘