کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 7
چلی جاتی ہے۔ ایسے میں بہت سے مسلمان مایوسی اور بے اعتمادی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں ۔
ہمیں یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ حالات کی تبدیلی اور مشکلات و مصائب سے نجات کی سنت ِالٰہیہ کیا ہے؟ دنیا میں ہونے والے اُمور کو اللہ تعالیٰ نے عمل اور اعتقاد کے مابین ایک توازن کے ساتھ جاری کیا ہے۔ دنیا کو بظاہر عالم الاسباب بنایا گیا ہے جہاں کوئی بھی شے ظاہری اسباب کے تحت وجود میں آتی ہے، اس سلسلے میں دعاؤں اور اعتقاد و ایمان کا بھی اہم حصہ ہے لیکن اس پر بحث کو ہم قدرے مؤخر کرتے ہیں ۔
انبیاء کرام کا اُسلوبِ تغیر
انبیاء کرام اللہ کی برگزیدہ اور منتخب ہستیاں ہوتی ہیں اور ان کی بعثت کا مقصد وحید اللہ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہوتا ہے۔ اگر اسباب کے بغیر غیبی ذرائع سے مدد کرنے کی سنت اللہ تعالیٰ نے اپنائی ہوتی تواس کی سب سے زیادہ مستحق انبیا کی ذات ہوتی لیکن انبیا اپنی دعوت اور اقامت ِدین کی تحریک کو ظاہری اسباب سے بھی مسلح کرتے ہیں اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کے کردار و عمل کے ذریعے اس تحریک کو کامیابی اورغلبہ کا زمینی جواز بھی فراہم کرتے ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور دعوت کا دارومدار صرف اللہ سے دعا اور ایمان و ایقان پر منحصر ہوتا تو انبیا کی دعوت کے نتائج میں بھی اس قدر فرق نہ ہوتا۔ اسباب اور حالات و واقعات کے پس پردہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ِبالغہ اور مشیت بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
انبیاء کے اسلوبِ دعوت و غلبہ دین کا ذرا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس امر پر انشراحِ صدر ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے مادّی اسباب سے انہیں بھی میدانِ دعوت میں لیس کرکے بھیجا تھا۔ موجودہ دور کے ظاہری اسباب میں جس طرح سیاسی، عسکری اور اقتصادی برتری سرفہرست ہیں ، اس طرح سادہ زمانوں میں قبائل اور نسلوں کی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔ قرآنِ کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت لوط کو اپنے مخاطبین کے بالمقابل قوت اور شوکت میسر نہ ہوئی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہی شکایت ان الفاظ میں کی ہے :
﴿قَالَ لَوْأنْ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْآوِیْ إلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ﴾ (ہود:۸۰)