کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 69
’شہر آشوب‘ جہاں تک شہر آشوب کا تعلق ہے…’’اس میں زمانے کی دستبرد کا گلہ کیا جاتا ہے۔ حملہ آور بادشاہوں اور طالع آزماؤں کے ظلم و ستم پر نوحہ و فریاد کی جاتی ہے۔ عوام الناس کی بدحالی اور شکستگی کا رونا رویا جاتا ہے۔ لوٹ مار اور غارت گری کے ہاتھوں مٹ جانے والوں کا مرثیہ کہا جاتا ہے۔ عزت و ناموس لٹ جانے پر نالہ و شیون زبان پر آتا ہے۔ اور پھر ابتلا کے تدارک اور انتقام کے لئے کسی فریاد رس سے التجاکی جاتی ہے۔‘‘ اب ظاہر ہے کہ فریاد رس ایسی ہستی ہی ہوسکتی ہے جو اس رنج و بلا کے دور کرنے پر قادر ہو۔ اور وہ ہستی مخلوق نہیں ، خالق ہی ہوسکتی ہے۔ اس لئے اکثر شہر آشوب لکھنے والوں نے اللہ تعالیٰ ہی سے فریاد کی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو ذوالقوۃ المتین ہے اور وہ انسان کے مصائب و مشکلات میں اس کی فریاد سنتا اور مدد کرتا ہے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہم اسی کو پکاریں اور اسی سے فریا دکریں : ﴿وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُوْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ﴾ ( البقرۃ:۱۸۷) ’’اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں (تو جواب دے کہ) میں ان کے قریب ہی ہوں ۔ جب پکارنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں پس وہ مجھی سے مانگیں اور مجھی پر ایمان لائیں تاکہ وہ رشد و فلاح حاصل کریں ۔‘‘ ﴿قُلْ مَنْ یُنَجِّیْکُمْ مِنَ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَہٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً لَئِنْ اَنْجٰنَا مِنْ ھٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ﴾ (الانعام:۶۴) ’’اے نبی ان سے کہئے کہ تمہیں خشکی اور تری کی مصیبتوں سے کون بچاتا ہے جب کہ تم اسے عاجزی سے اور خفیہ طور پرپکارتے ہو (اور کہتے ہو) کہ اگر وہ ہمیں اس مصیبت سے بچائے گا تو ہم ضرور شکر گزار ہوجائیں گے۔‘‘ ﴿قُلِ اللّٰہُ یُنَجِّیْکُمْ مِنْھَا وَمِنْ کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ﴾ (الانعام:۶۵) ’’کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمہیں ان سے اور دوسرے تمام مصائب سے نجات دلاتا ہے،