کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 68
روشنی کا مینار ہے۔ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ ان دو ماخذوں سے باہر کی تعلیمات پر اپنے دینی عقائد کی بنیاد رکھے اور کسی دوسری قوم کی تقلید یا تقابل میں قال اللہ وقال الرسول سے تجاوز کرے۔ چونکہ شاعری میں جذبات و تخیلات کی جولانیاں آدمی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں ، اس لئے اس کی پیش بندی کے طور پرقرآن نے شاعری کی مذمت کی۔یہ مذمت گو دورِ جاہلی کی شاعری سے مخصوص ہے مگر اس نے مسلمان شاعروں کے لئے اِبلاغ کا راستہ متعین کردیا۔ جب یہ ارشاد ہوا: ﴿وَاِنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لاَ یَفْعَلُوْنَ﴾ تو ساتھ ہی مؤمن شاعروں کو یوں مستثنیٰ کردیا: ﴿إلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ وَذَکَرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرًا وَانْتَصَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا﴾گویا مسلمان شاعروں کو اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ قرآنی تعلیمات کے اندر رہتے ہوئے شاعری کریں اور بے جا غلو سے پرہیز کریں ۔ وہ اپنے تو سن فکر کو بے لگام نہ ہونے دیں اور قرآنی تعلیمات سے اپنامحاسبہ کرتے رہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حمدونعت میں بھی حفظ ِمراتب کا خیال رکھا جاتا ہے اور نعت اپنی مخصوص حدوں سے تجاوز نہیں کرنے پاتی۔ اسی بنا پر عرفی کو یہ کہنا پڑا ؎ عرفی مشتاب ایں رہ نعت است نہ صحر است آہستہ کہ رہ بردم تیغ است قلم را ہشدار کہ نتواں بیک آہنگ سرودن نعت شہ کونین و مدیح کے وجم را ’’اے عرفی! تو اتنی تیزی نہ دکھا۔ یہ نعت کا راستہ ہے، کوئی صحرا نہیں ہے کہ تو آنکھیں بند کرکے دوڑتا چلاجائے گا۔یہ راستہ تو بہت کٹھن ہے اور اس کی کیفیت تلوار کی دھار پر چلنے کا نام ہے۔( یعنی مبالغہ کرو گے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے برابر درجہ دے دو گے اور اگر اس میں کمی کرو گے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مرتبے سے نعوذ باللہ نیچے لے آؤ گے) تجھے تو ہوشیار رہنا چاہئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح گوئی اور کے وجم (بادشاہوں ) کے قصیدے کہنے کو ایک ہی آہنگ و انداز نہیں رکھا جاسکتا۔‘‘