کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 67
میں اپنی جولانی طبع کو صرف کیا تو کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کے تمام پہلوؤں کو اپنے الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کی مگر وہ ذات جس کی تعریف خود خالق ِکائنات کرے، وہ کسی بشر کے اِحاطہ علم و قلم میں کیسے مقید ہوسکتی ہے۔ فسبحان اللہ أحسن الخالقین شعرا نے ہادیٔ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و مناقب اور سیرت و صورت کے بیان میں حسن کلام اور حسن عقیدت کی جولانیاں دکھائی ہیں ۔ آپ کے حسن و جمال کی بوقلمونی، آپ کی سیرتِ مبارکہ کے نقوشِ لازوال، میلاد و معراج، آپ کی تعلیم، تقویٰ و طہارت، عالمگیری وجہاں آرائی، آپ کی محبت میں سوز و گداز، ہجر و وصال، آپ کے قرب کی خواہشات، آپ کے شہر میں موت کی آرزوئیں اور آپ کے معجزات اور غزوات کی تفصیلات نعت کے عام موضوعات ہیں ۔ ’آشوبِ ذات‘ نعت گوئی کا دامن اسلام کی توسیع کے ساتھ ساتھ پھیلتا گیا اور عرب کے بعد عجمی ممالک میں جب نورِ اسلام جلوہ گر ہوا تو اس موضوع میں کچھ مقامی رنگ کی بھی آمیزش ہوتی گئی۔ خصوصاً فارسی نعت گوئی جو طلوعِ اسلام سے کم و بیش تین صدیاں بعد وجود میں آئی اس میں ایک اور موضوع کا اضافہ ہوا اور وہ تھا آشوبِ ذات یا آشوبِ دہر پر شاعروں کی مرثیہ گوئی۔ اسلامی ممالک میں سیاسی کشمکش ، سلطنتوں کی شکست و ریخت اور اقتدار کی جنگ وجدل نے جہاں آبادیوں کو تہ و بالا کیا، وہاں لوگوں کے معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کو بھی زیر و زبر کیا۔ اس قسم کے آشوب و ابتلا میں شاعروں نے بھی اپنے مصائب و آلام کے نوحے کہے اور غم و اندوہ کے مرثیے لکھے۔ رنج و غم کی یہ لے نعتیہ قصائد میں بھی در آئی اور بعض شعرا نے اپنے مصائب و مشکلات کی فریاد رسی کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو پکارنا شروع کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غم و اندوہ سے نجات دلانے کی التجائیں کرنے لگے۔ اِفراط و تفریط: یہ مسلمہ امر ہے کہ حمد ونعت کے مابین ایک بَیِّن فرق ہے۔ ’حمد‘ معبود کی ثنا ہے اور ’نعت‘ عبد کی منقبت۔ اس سلسلے میں قرآن و حدیث کی تعلیم مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے