کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 66
ہی جمع ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب اسلام کا سورج عرب سے باہر جلوہ فرما ہوا تو اس سے بیشمار ممالک نورِ اسلام سے منور ہوگئے۔ قرآن کی تعلیم کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت بھی دلوں کو زندہ کرتی گئی اور ہر زبان کے شاعروں اور ادیبوں نے محبت آمیز خطبے اور دل فریب نعتیہ نغمے ایجاد کئے۔ اس طرح نعت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم جو بجو، دریا بہ دریا اور یم بہ یم بساطِ عالم پر چھا گئی۔ عرب شعرا کے تتبع میں دیگر زبانوں خصوصاً فارسی میں نہایت وقیع نعتیہ قصائد اور نعتیں کہی گئیں ۔ اس سلسلے میں ہمیں عطارؔ، رومی، ؔنظامی، ؔجامی،ؔ خسرو،ؔ فیضی،ؔ سعدی،ؔ عرفی،ؔ قدسی،ؔ قاآنیؔ اور دیگر بے شمار شعرا نظر آتے ہیں جن کے نعتیہ کلام میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سمندر موجزن ہیں ۔ انہی سمندروں سے نعت ِحبیب ِکبریا صلی اللہ علیہ وسلم کے بادل اٹھے اور ہماری اُردو شاعری کو سیراب کرتے چلے گئے۔ دکن سے اُردو شاعری کی موجیں شمالی ہند کی جانب بڑھیں تو دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ نعت و منقبت کے دھارے بھی گلستانِ ادبِ اُردو میں لہریں مارنے لگے۔ ولی دکنی سے لے کر امیرمینائی تک اردو شعرا کی ایک کھیپ ہمیں نعت سرائی کرتی نظر آتی ہے اور پھر حالی ؔسے ہوتی ہوئی یہ روایت ظفر علی خان تک قوت و توانائی کا ایک عظیم مینار بن کر ہمارے سامنے آئی ہے۔ اقبال کے ہاں نعت آفاقی منازل تک صعود کرجاتی ہے۔ اور پھر اس کی روشنی کچھ اس طرح پھیل جاتی ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد نعت گوئی ہر مسلمان شاعر کا جزوِایمان بن جاتی ہے۔ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کا شاید ہی کوئی شاعر ہوگا جس نے نعت نہ کہی ہوگی اور اپنے علم و عرفان کی پوری صلاحیتوں کو عقیدت اور محبت کے گل ہائے رنگ رنگ کے گلدستے سجانے میں صرف نہ کیا ہوگا۔ ’نعت‘ جس کے لغوی معنی ہی تعریف و توصیف کے ہیں ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد و محاسن اور حسن و جمال کا بیان ہوتی ہے مگر اس میں اتنا تنوع اور اتنی وسعت ہے کہ شاعر اپنے جذبات و تصورات میں حسین سے حسین تر عالم تخلیق کرتا ہے اور زمین سے عرش و کرسی تک توسن ِفکر کو دوڑاتا ہے پھر بھی نعت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپا کے حسن و جمال