کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 65
شعر وادب علیم ناصری نعتیہ شہر آشوب٭ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی محبوبِ خدا ہی نہیں ، محبوبِ خلائق بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ ارشاد فرمایا: ﴿إنَّ ﷲَ وَمَلَائِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾(احزاب:۵۶) تو محبوبِ کائنات پر درود وسلام بھیجنے کی نص قطعی نے محبوب کے ساتھ والہانہ اظہارِ محبت کے جذبات میں ایک عظیم شدت پیدا کردی۔ محبت وعقیدت کے دھارے پھیل کر طوفانوں کی صورت اختیار کرگئے۔ اگرچہ بعثت سے پہلے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف میں کسی نے بخل سے کام نہیں لیا۔ یگانے اور بیگانے آپ کے مداح تھے مگر درود وسلام کی فرضیت نے اس بادۂ طہور کو دو آتشہ کردیا۔ خطیبوں کی تقریریں ، حدی خوانوں کی تانیں ، شاعروں کے ترانے اور واعظوں کے ارشادات حمد کے ساتھ نعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی رطب اللسان ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہی میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ بن زُہیر، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن رواحہ اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اپنی اپنی قوتِ کلام کے جوہر دکھائے اور نعت کا بیش بہا خزانہ قرنِ اُولیٰ میں ٭ نعتیہ شہر آشوب: اپنے ذاتی مصائب (بیماری، غربت، بے کسی وغیرہ) یا اپنے دور کے مصائب بصورت بیرونی فاتحین کے ہاتھوں اپنے شہر میں قتل و غارت اور عوام کی زندگی کا مصائب میں گرفتار ہونا وغیرہ کواشعار میں بیان کرنا اور ان مصائب سے نجات کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کرنا اور ان سے مدد طلب کرنا نعتیہ شہر آشوب ہے۔ شہر آشوب: ایک ہی شہر کے مصائب بیان کرنا مثلاًسوداؔ کا دِلّی کے اور سعدیؔ کا بغداد کے مصائب بیان کرنا۔ آشوبِ ذات: شاعر کا اپنی ذاتی پریشانیوں ، بیماریوں وغیرہ کا بیان اور اس میں مدد کی طلب وغیرہ جیسے بوصیری کا اپنی بیماری پر استمدادی قصیدہ وغیرہ۔