کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 64
مجدد الف ِثانی رحمۃ اللہ علیہ موصوف اپنے کسی عقیدت مند کو عید ِمیلاد کے حوالہ سے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ ’’بہ نظر انصاف ببینند اگر فرضا حضرت ایشاں دریں اوان در دنیا زندہ می بودند و ایں مجلس و اجتماع منعقدمے شد آیا بہ ایں راضی مے شد ند وایں اجتماع رامے پسندیدند یانہ؟ یقین فقیر آں است کہ ہرگز ایں معنی را تجویز نہ فرمودند بلکہ انکار مے نمودند مقصود فقیر اعلام بود قبول کنید یا نہ کنید ہیچ مضائقہ نیست و گنجائش مشاجرہ نہ۔ اگر مخدوم زادگان و یاران آنجاں برہماں وضع مستقیم باشند ما فقیراں را از صحبت ایشاں غیر از حرماں چارہ نیست‘‘ (مکتوب ۲۷۳ ، دفتر اول، حصہ پنجم ص ۲۴، نورکمپنی لاہور) ’’انصاف سے دیکھئے اور بتائیے کہ اگر اس زمانے میں خود حضرت (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) دنیا میں زندہ ہوتے تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مجلس میلاد کو پسند فرماتے؟ اور اس سے خوش ہوتے؟ فقیر کو یقین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز اس کو جائز نہ سمجھتے بلکہ اس سے منع ہی فرماتے۔ فقیر کا کام تو بس مطلع کرنا ہے۔ لہٰذا آپ اسے قبول کریں یا ردّ، مجھے کوئی پرواہ نہیں اور نہ اس میں لڑائی جھگڑے کی کوئی گنجائش ہے۔ لیکن اگر آپ گذشتہ روش ہی پر رہے اور اسی حالت پر آپ کو اصرار رہا تو فقیر کو سوائے ترکِ ملاقات کے کوئی چارہ نہ ہوگا۔‘‘ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آپ سے سوال کیا گیاکہ ربیع الاوّل کے دنوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ مبارک کو مختلف انواع کے کھانے کھلانے سے ثواب پہنچانا جائز ہے؟ تو آپ نے اس کا یہ جواب دیا کہ ’’اس کام کیلئے وقت اور دن کا تعین کرنا اور مہینہ خا ص کرنا بدعت ہے اور سنت کے مخالف ہے اور سنت کی مخالفت حرام ہے لہٰذا یہ بالکل جائز نہیں ۔‘‘(فتاویٰ عزیزیہ: ص۹۳) نیز ’’کسی پیغمبر کی ولادت کے دن کو عید کی طرح منانا جائز نہیں ۔‘‘ (تحفۃ اثنا عشریہ) عبدالسمیع رام پوری (خلیفہ احمدرضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ) موصوف فرماتے ہیں کہ ’’یہ سامانِ فرحت و سرود اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوا، یعنی چھٹی صدی کے آخر میں ۔‘‘ (انوارِ ساطعہ: ص۱۵۹)