کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 63
تاج الدین الفاکہانی رحمۃ اللہ علیہ شیخ تاج الدین عمر بن علی الفاکہانی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ ’’بہت سے لوگوں نے بار بار مجھ سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا کہ شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے یا یہ دین میں ایک بدعت ہے؟ تو میں نے کہا کہ کتاب وسنت سے اس میلاد کی کوئی دلیل مجھے نہیں ملی اور علمائے اُمت جو دین میں ایک نمونہ اور سلف کے آثار پرگامزن رہنے والے تھے، ان میں سے بھی کسی سے اس کی مشروعیت منقول نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بدعت ہے جسے باطل پرستوں ، خواہش نفس کے پجاریوں اور پیٹ پرستوں نے گھڑا ہے۔‘‘ (الحاوی للفتاوی: ج۱/ ص۱۹۰،۱۹۱) ابن الحاج رحمۃ اللہ علیہ ابوعبداللہ محمد بن محمد العبدری المعروف بابن الحاج رقم طراز ہیں کہ ’’ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادھم أن ذلک من أکبر العبادات وإظھار الشعائر ما یفعلونہ فی شھر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات‘‘ (المدخل: ج۲ /ص۲۲۹) ’’لوگوں کی جاری کردہ بدعات میں سے ایک بدعت ربیع الاول میں محفل میلاد کا قیام ہے۔ اس بدعت کو اختیار کرنے والے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ ایک سب سے بڑی عبادت اور شعائر ِاسلامیہ کے اظہار کا عمل ہے۔ حالانکہ یہی بدعت میلاد مزید کئی بدعات و محرمات پر بھی مشتمل ہے۔‘‘ نیز فرماتے ہیں کہ : ’’محفل میلاد کے موقع پر اگر سماع و غنا کا بھی انتظام ہو تو یہ ظلمات بعضھا فوق بعض کی طرح ہے۔ اوراگر محفل میلاد سماع و غنا اور دیگر مفاسد سے مبرا ہو اور صرف لوگوں کے لئے میلاد کی نیت سے کھانے کا انتظام ہو تو تب بھی یہ بدعت ہے کیونکہ یہ دین میں اضافہ ہے ۔ سلف صالحین کے ہاں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، حالانکہ سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنا ہی زیادہ بہتر ہے۔‘‘