کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 61
اللہ کے حضور پیش ہوں تو میں نے روزہ رکھا ہو۔‘‘ (فتح الباری :۴/۲۳۶) 3. اگر بالفرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کا روزہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھتے تھے تو پھر چاہئے تو یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سال بھر میں صرف اپنے یومِ تاریخ کا ایک ہی روزہ رکھتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر ہفتے کی سوموار (اور جمعرات) کو روزہ رکھا کرتے تھے… اس سے بھی معلوم ہوا کہ یہاں بھی میلاد کی کوئی گنجائش نہیں ۔ 4. اگر حدیث ِمذکور کی بنا پر خوشی اور میلاد ضروری ہے تو پھر کم از کم میلاد منانے والوں کو اس روز، روزہ رکھنا چاہئے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس روز روزہ رکھا کرتے تھے۔ مگر میلاد منانے والے تو دعوتیں اڑاتے ہیں ۔ بقول شخصے ع حضور روزہ فرماتے ہیں اوریہ عید مناتے ہیں ! 4. بعض بھولے بسرے یہ اعتراض بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر یوم اقبال، یوم قائداعظم اور یوم سالگرہ منانا درست ہے تو پھر یومِ میلاد کیوں بدعت ہے؟ جواب: یہ اعتراض تب درست ہوسکتا تھا کہ جب یوم اقبال، یومِ قائد اور سالگرہ وغیرہ منانا دینی اعتبار سے مشروع و جائز ہوتا مگر جب یہ چیزیں بذاتِ خود غیر مشروع ہیں تو انہیں بنیاد بنا کر نئی چیز کیسے مشروع (جائز) ہوجائے گی؟ اسلام میں ایام پرستی کا کوئی تصور نہیں ۔ اگر ایام پرستی کا اسلام نے لحاظ رکھا ہوتا تو ہر روز کسی نہ کسی نبی، ولی اور عظیم واقعہ کی یاد میں ایک نہیں ، سینکڑوں جشن منانا پڑتے اور اُمت مسلمہ کو سال بھر ایام پرستی ہی سے فرصت نہ مل پاتی۔ علاوہ ازیں یوم اقبال اور یوم قائد وغیرہ منانے والے کیا اسلامی شریعت میں ایسا امتیازی مقام رکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے اسفعل کو دین و حجت قرا ر دے دیا جائے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر اسے بنیاد بنا کر عید ِمیلاد کا جواز کشید کرنا بھی درست نہیں بلکہ یہ تو ’بناء فاسد علیٰ الفاسد‘ ہے! اسی طرح بچوں کی سالگرہ منانا غیرمسلموں کی نقالی ہے۔ اسلام میں اس کی بھی کوئی اصل نہیں ۔ اور ویسے بھی یہ غیر معقول رسم ہے کہ ایک طرف کل عمر سے ایک سال کم ہورہا ہے اور دوسری طرف اس پر خوشی منائی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں غیر مسلموں کی تہذیب و تمدن اور