کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 59
میں بیان کردیتے ہیں اور یہ روایت بھی عروہ تابعی سے مرسل مروی ہے اور محدثین کے نزدیک مرسل تابعی حجت نہیں ۔ 2. پھر یہ مرسل روایت اہل سیر کی روایات کے خلا ف ہے، اس لئے کہ اکثر و بیشتر اہل سیر کے مطابق ابولہب نے اپنی لونڈی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے کافی عرصہ بعدآزاد کیا تھا مگر اس روایت سے اس کو ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر آزاد کرنے کا اشارہ ہے۔ ابن جوزی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں کہ ’’ ثویبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت بھی آیا کرتی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرلی تھی۔ اور ان دنوں بھی یہ ابو لہب کی لونڈی تھی مگر اس کے بعد ابولہب نے اسے آزا دکردیا۔‘‘ (الوفاباحوال المصطفیٰ : ص۱۰۷/ ج۱) حافظ ابن حجر نے بھی یہ بات ذکر کی ہے۔ (فتح الباری:۹/۱۴۵ اور الاصابہ:۴/۲۵۰) اسی طرح ابن سعد نے طبقات (۱/۱۰۸) میں اور ابن عبدالبر نے الاستیعاب (۱/۱۲) میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ 3. مذکورہ روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابولہب نے ثویبہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر آزا دنہیں کیا لیکن اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ اس نے ولادت ہی پر اسے آزاد کیا تھا تو پھر ابولہب کا یہ عمل اس وقت کا ہے کہ جب اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا کہ میرا بھتیجا نبی بنے گا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پراس نے بحیثیت ِچچا اپنی لونڈی آزاد کرکے مسرت کا اظہار کیا اور بچے کی پیدائش پرایسا اظہارِ مسرت بلا استثناءِ مسلم و غیر مسلم ہر شخص فطری طور پر کیا ہی کرتا ہے۔ چنانچہ ابولہب نے بھی اس فطری مسرت کا اظہار کیا مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کا اعلان کیا تو یہی ابولہب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش تھا اور اسی ابولہب کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۂ لہب نازل فرمائی کہ ﴿تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ مَا أَغْنٰی عَنْہٗ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ﴾ (سورۂ لہب:۱تا۳) ’’ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا۔ نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔ وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں داخل ہوگا۔‘‘