کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 58
’’عروہ راوی کا بیان ہے کہ ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی اور ابولہب نے اسے آزاد کردیا تھا۔ اس لونڈی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (بچپن میں ) دودھ پلایا تھا۔ جب ابولہب فوت ہوا تو اس کے کسی عزیز نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بری حالت میں ہے تو اس سے پوچھا کہ کیسے گزر رہی ہے؟ ابو لہب نے کہا کہ تم سے جدا ہونے کے بعد کبھی آرام نہیں ہوا، البتہ مجھے یہاں (انگوٹھے اور انگشت ِشہادت کے درمیان گڑھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) سے پانی پلا دیا جاتا ہے اور یہ بھی اس و جہ سے کہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزادی بخشی تھی۔‘‘ جواب:1. سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ روایت صحیح بخاری کی مسند روایتوں میں شامل نہیں ٭ بلکہ ان معلقات میں سے ہے جنہیں امام بخاری بغیر سند کے اَبواب کے شروع ٭ واضح رہے کہ صحیح بخاری میں بنیادی طور پر دو طرح کی روایات ہیں : ایک تو وہ جنہیں امام بخاری نے باقاعدہ متصل اسناد کے ساتھ روایت کیا اور اپنی شرائط کے مطابق انہیں صحیح قرار دیا ہے۔ انہی روایات کی تعداد میں اہل علم کا اختلاف ہے اور تکرار کے ساتھ ان کی تعداد سات ہزار کے لگ بھگ جبکہ بغیر تکرار کے ان کی تعداد چار ہزار بیان کی گئی ہے اور یہی وہ روایات ہیں جن کی صحت پر اُمت کا شروع سے اتفاق چلا آرہا ہے۔ البتہ بعض روایات ایسی ہیں جنہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے معلق (شروع، درمیان یا آخر سے سند کو قصداً حذف کرکے) روایت کیا ہے۔ ان کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔ ان میں سے تقریباً ڈیڑھ سو کے علاوہ باقی تمام معلق روایات کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متصل سند کے ساتھ بھی اپنی صحیح میں دوسرے مقامات پر روایت کیا ہے اس لئے ان کی صحت میں بھی کلام نہیں لیکن جنہیں متصل سند کے ساتھ بخاری نے روایت نہیں کیا، ان کی صحت پرکلام کیا گیا ہے اور ان میں سے بھی بعض تو دیگر اسناد کے ساتھ پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہیں جبکہ بعض پر ضعیف کا حکم لاگو ہوتا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ہدی الساری مقدمہ فتح الباری (ص۱۷ تا۱۹) میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے اور فتح الباری (۹/۱۴۵) میں زیر بحث معلق روایت کو مرسل قرار دے کر ناقابل احتجاج قرار دیا ہے۔ اس لئے بخاری کی معلق روایات کی تصحیح و تضعیف کی بحث سے یہ مغالطہ پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ بخاری میں ضعیف روایتیں بھی ہیں بلکہ یہ بعض ضعیف روایتیں صرف ان معلقات میں شامل ہیں جنہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ضمنی طور پر کسی مقصد کے لئے ذکر کیا ہے مثلاً کسی بحث کا عنوان (باب) تجویز کرنے یا کسی تاریخی یا زبان زد عام واقعہ کی طرف اشارہ کرنے یا کسی بات کی تردید کرنے یا ایسے ہی کسی اور جزوی مقصد کے لئے نقل کیا ہے۔انہیں ذکر کرنے سے ان کا مقصد باقاعدہ ایسی حدیث کی روایت نہیں ہوتا، بلکہ ان کا بطورِ مستند حدیث بخاری میں ذکر نہ ہونا، اس امرکا بھی قرینہ ہوتا ہے کہ یہ روایت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر نہیں ۔