کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 57
اختلاف صرف اظہارِ خوشی کے طریقے پر ہے! یہاں اس شبہ کا اِزالہ بھی ہوجانا چاہئے کہ میلا دنہ منانے والوں کے بارے میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور رسالت پر شاید خوشی ہی نہیں ہے۔ ایسی بات ہرگز نہیں کیونکہ جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہی نہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و بعثت پر خوشی ہی نہیں ، وہ فی الواقع مسلمان ہی نہیں ۔ البتہ اختلاف صرف اتنا ہے کہ اس خوشی کے اظہار کا شرعی طریقہ کیا ہونا چاہئے۔ اگر کہا جائے کہ جشن، جلوس، میلاد اور ہر من مانا طریقہ ہی جائز و مشروع ہے تو پھر پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ پھر صحابہ کرام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت مشکوک ٹھہرتی ہے، اس لئے کہ انہوں نے اظہارِ محبت کے لئے کبھی جشن میلاد نہیں منایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر وہ جان دینے سے بھی نہیں گھبرایا کرتے تھے! حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے خوشی اور غمی کی حدود و قیود متعین کردی ہیں جن سے تجاوز ہرگز مستحسن نہیں ۔ اس لئے شیعہ حضرات کا شہداے کربلا کے رنج و غم پر نوحہ و ماتم کرنا، تعزیے نکالنا، سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرنا جس طرح دینی تعلیمات کے منافی اور رنج و غم کی حدود سے اِضافی ہے اسی طرح بعض سنّیوں کا ۱۲/ربیع الاول کو یومِ ولادت کی خوشی میں جلوس نکالنا، بھنگڑے ڈالنا، قوالیاں کرنا، رات کو بلا ضرورت قمقمے جلانا، چراغاں کرنا اور بے جا اِسراف کرنا بھی دینی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کے نزدیک جشن میلاد ’برحق‘ ہے تو پھر اسے چاہئے کہ دل پر ہاتھ رکھ کر شیعہ کے نوحہ و ماتم کو بھی برحق کہہ دے ! احادیث کے دلائل 1. صحیح بخاری کے حوالے سے عید میلاد کے جواز کے لئے یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ ’’قال عروۃ وثویبۃ مولاۃ لأبي لھب وکان أبولھب اعتقھا فأرضعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلما مات أبولھب اریہ بعض أھلہ بشر حیبۃ قال لہ ماذا لقیت؟ قال أبولھب لم الق بعدکم غیرانی سقیت فی ھذہ بعتاقتی ثویبۃ‘‘ (کتاب النکاح: باب وأمھاتکم اللآتی أرضعنکم)