کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 56
آیت نمبر3 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی قوم کو گذشتہ قوموں کے واقعات سے باخبر کریں کہ کس طرح ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے انہیں ہلاکت و عذاب سے دوچار کیا گیا اور اطاعت گزاروں کو کامیابی سے نوازا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اصول تفسیرکی کتاب ’الفوز الکبیر‘ میں قرآنِ مجید کے پانچ علوم میں سے ایک کا نام ’علم التذکیر بایام اللہ‘ رکھا جس میں گذشتہ اقوام کے عروج وزوال، انعام و اکرام یا ہلاکت و عذاب پر بحث کی جاتی ہے۔ اگر بالفرض اس آیت سے گذشتہ نبیوں کا میلاد منانا مراد ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گذشتہ نبیوں کا میلاد کیوں نہ منایا؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ کا میلاد کیوں نہ منایا؟ آیت نمبر4 میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے اور انہوں نے کبھی میلا دنہ منایا نہ ان کے حواریوں نے ایسا کیا البتہ ان کے آسمان پراٹھائے جانے کے عرصہ دراز بعد تقریباً ۳۳۶؁میں پہلی مرتبہ رومیوں نے اس بدعت کو دین عیسوی میں ایجاد کیا۔ روم کے عیسائی علما نے باہم مشورہ سے طے کیا کہ مقامی بت پرستوں کے مقابلہ میں مسیحیوں کی شناخت کے لئے بھی کوئی تہوار ہونا چاہئے۔ رومی بت پرست ۶/ جنوری کو اپنے ایک دیوتا کے احترام میں تہوار مناتے تھے لہٰذا عیسائیوں نے بھی کرسمس کے لئے یہی تاریخ منتخب کی مگر بعد میں عیسائیوں نے ۲۵ دسمبر کو کرسمس منانے پر اتفاق کرلیا کیونکہ اس تاریخ کو سب سے بڑے دیوتا (یعنی سورج) کا تہوار منایا جاتا تھا ۔ پھر دین عیسوی کی اس بدعت کو جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز اختیار نہیں کیا تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس کی بنیاد پر میلا دالنبی صلی اللہ علیہ وسلم منائیں ۔ علاوہ ازیں اگر یوم ولادت سے عید میلاد منانے کا جواز ہے تو پھر اس آیت میں موجود یَوْمَ أَمُوْتُ سے ’یومِ سوگ ‘ بھی منانا چاہئے۔ اگر ’یوم سوگ‘ نہیں تو پھر جشن ولادت ہی کیوں ؟ آیت نمبر5 میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت کا ذکر ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے، بدعت ِمیلاد کے مرہون منت قرار نہیں دیا۔ لیکن اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت و عظمت جشن میلاد ہی سے ممکن ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ جب تک یہ بدعت ایجاد نہیں ہوئی تھی تب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت کیسے قائم رہی؟