کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 55
سے کرنا چاہئے۔ جواب:1. اس آیت میں اگرچہ انعاماتِ خداوندی کے اظہار کا ذکر ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا کسی نعمت کے اظہار کے لئے اسلام نے جلوس نکالنے کا حکم دیا ہے؟ مثلاً آپ کے گھر میں بیٹا پیدا ہو تو تحدیث ِنعمت کے طور پر آپ شہر بھر میں جلوس نکالیں گے؟ اگر آپ ہاں بھی کہہ دیں تواللہ کی نعمتیں شمار سے باہر ہیں ، آخر کس کس نعمت پر جلوس نکالیں گے…؟ 2. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ِعظمیٰ ہیں مگر سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ صحابہ کرام نے اس نعمت ِعظمیٰ کی کس طرح قدر کی؟ کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عید میلاد مناکر اور جلوس نکال کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرومنزلت کا خیال کیا کرتے تھے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و فرمودات پر عمل پیرا ہوکر اس نعمت کا اظہار کیا کرتے تھے؟ جس طرح صحابہ کرام کیا کرتے تھے، من و عن اسی طرح ہمیں بھی کرنا چاہئے۔اگر وہ جلوس نکالا کرتے تھے تو ہمیں بھی ان کی اقتدا کرنی چاہئے اگر ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی یا بعد از وفات ایک مرتبہ بھی جشن و جلوس منانا ثابت نہیں تو پھر کم از کم ہمیں بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنا چاہئے۔ 3. یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر ایک مرتبہ بھی عید ِمیلاد نہیں منائی، پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم اسے کارِ ثواب قرار دے کر دین میں اضافہ ، اپنے عملوں کو برباد اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کریں ۔ 3. ﴿وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ﴾ (ابراہیم:۵) ’’اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلاؤ۔‘‘ 4. ﴿وَالسَّلاَمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ أُبْعَثُ حَیًّا﴾ (مریم:۳۳) ’’اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ کھڑا کیا جاؤں گا، سلام ہی سلام ہے۔‘‘ 5. ﴿وَرَفَعْنَاَ لَکَ ذِکْرَکَ﴾ (الانشراح:۴) ’’اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بلند کردیا‘‘ جواب:ان تینوں آیات سے بھی عید ِمیلاد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں کہیں جشن عیدمیلاد کا ذکر نہیں ۔ اگر اس کا کوئی اشارہ بھی ہوتا تو وہ صحابہ کرام سے آخر کیسے مخفی رہ سکتا تھا؟!