کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 54
کی ذاتِ گرامی ٹھہری، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر خوشی منانا چاہئے اور فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا میں بھی خوشی منانے کا حکم ہے۔
جواب: 1. سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی حکم خداوندی سے اس کی قولی و عملی تفسیر و تشریح فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت وبعثت کے بعد ۲۳ مرتبہ یہ دن آیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بھی اس کی قولی و عملی تفسیر فرماتے ہوئے عید ِمیلاد نہیں منائی اور نہ ہی صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین، مفسرین و محدثین وغیرہ کو اس آیت میں عید ِمیلاد نظر آئی مگر داد ہے ان نکتہ دانوں کے لئے جنہیں چودہ سو سال بعد خیال آیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا حکم دیا ہے اور ان پاکباز ہستیوں کو یہ نکتہ رسی نہ سوجھی کہ جنہیں نزولِ قرآن کے وقت براہِ راست یہ حکم دیا گیا۔
2. حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا عید میلاد کا کوئی ذکر و اشارہ تک بھی نہیں بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نزولِ قرآن کی نعمت پر خوش ہوجاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کے لئے اسے نازل کیا ہے۔
3. علاوہ ازیں خوشی کا تعلق انسان کی طبیعت اورقلبی کیفیت سے ہوتا ہے نہ کہ وقت اور دن کے ساتھ۔ اس لئے اگر نزولِ قرآن یا صاحب ِقرآن (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) پر خوش و خرم ہونے کا حکم ہے تو یہ خوشی قلبی طور پر ہر وقت موجود رہنی چاہئے، نہ کہ صرف ۱۲ ربیع الاول کو اس خوشی کا اظہار کرکے پورا سال عدمِ خوشی میں گزار دیا جائے۔ اگر آپ کہیں کہ خوشی تو سارا سال رہتی ہے تو پھر آپ سے از راہِ ادب مطالبہ ہے کہ یا تو سارا سال بھی اسی طرح بھنگڑے ڈال کر اور جلوس نکال کر خوشی کا اظہار کیا کریں یا پھر باقی سال کی طرح۱۲/ ربیع الاول کو بھی سادگی سے گزارا کریں ۔
2. ﴿وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ﴾ (الضحیٰ :۱۱)
’’اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ۔‘‘
اس آیت سے بھی یہ کشید کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُمت ِمسلمہ کے لئے سب سے بڑی نعمت ہیں لہٰذا اس نعمت ِعظمیٰ کا اظہار بھی بڑے پرشوکت جشن و جلوس