کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 51
کیا۔ (ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ۱۳/۱۲۴/وفیات الاعیان: ۴/۱۱۹/الحاوی للفتاوی: ۱/۱۸۹) واضح رہے کہ اس ابن دحیہ اندلسی کو محدثین نے ضعیف اور ناقابل اعتماد راوی قرار دیا ہے مثلاً امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ متہم (جس پر جھوٹ کاالزام ہو) راوی ہے۔ (میزان الاعتدال :۳/۱۸۶) اسی طرح حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ ظاہری مذہب کا حامل تھا۔ ائمہ کرام اور سلف صالحین کی شان میں گستاخی کرتا تھا۔ خبیث اللسان، احمق، شدید متکبر، دینی اُمور میں کم علم اور بے عمل شخص تھا۔‘‘ (لسان المیزان:ص۲۹۶/ ج۴) بدعت ِمیلاد برصغیر (لاہور) میں ! گذشتہ صفحات میں یہ بات بتائی جاچکی ہے کہ بدعت ِمیلاد چوتھی صدی ہجری (۳۶۱ھ) میں مصر کے فاطمیوں (غالی شیعہ) نے ایجاد کی پھر چھٹی صدی ہجری میں سنیوں میں بھی یہ رواج پاگئی۔ تاہم گردشِ ایام کے ساتھ یہ بدعت طبعی موت مرگئی۔ پھر برسوں بعد برصغیر میں انگریز کے آخری دور میں یہ دوبارہ زندہ ہوگئی۔ اس لئے کہ برصغیر کی عیسائی حکومت ہر ۲۵ دسمبر کوسرکاری سطح پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یومِ ولادت کا جشن مناتی تھی جس کی دیکھا دیکھی بعض کم علم مسلمانوں نے حب ِنبوی کے احساس سے اپنے طور پر عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا شروع کردی۔ اگرچہ بعض لوگ بدعت ِمیلاد کے قلابے اکبر دور سے ملاتے ہیں مگر معقول بات یہی دکھائی دیتی ہے کہ عیسائیوں کے کرسمس کے ردعمل میں مسلمانوں نے عید ِمیلاد کو رواج دیا۔ اس سلسلے میں درج ذیل دو تاریخی حوالے قابل توجہ ہیں : 1. روزنامہ ’کوہستان‘ ۲۲/ جولائی ۱۹۶۴ء میں احسان بی اے ’لاہور میں عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کی سرخی کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’لاہور میں عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوس سب سے پہلے ۵ /جولائی ۱۹۳۳ء مطابق ۱۲/ربیع الاول ۱۳۵۲ھ کونکلا۔ اس کے لئے انگریزی حکومت سے باقاعدہ لائسنس حاصل کیا گیاتھا۔ اس کا اہتمام انجمن فرزندانِ توحید موچی دروازہ نے کیا۔ اس انجمن کامقصد ہی اس کے جلوس کا اہتمام کرنا تھا۔ انجمن کی ابتدا ایک خوبصورت جذبہ سے ہوئی۔ موچی دروازہ لاہور کے ایک پرجوش نوجوان حافظ معراج الدین اکثر دیکھاکرتے تھے