کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 48
’’ فاطمی حکمران ۱۲/ ربیع الاول کو تیسرا جلوس نکالتے تھے اور اس جلوس کے موقع پر ان کا معمول یہ تھا کہ دارالفطرۃ (مقام) میں ۲۰ قنطار (پیمانہ) عمدہ شکر سے انواع و اقسام کا حلوہ تیار کیا جاتا اور پیتل کے ۳۰۰ خوبصورت برتنوں میں ڈال لیا جاتا۔ پھر جب میلاد کی رات ہوتی تو شریک ِمیلاد مختلف لوگ مثلا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) داعی و مبلغ اور خطباء و قرأ حضرات، قاہرہ اور مصر کی دیگر یونیورسٹیوں کے اعلیٰ عہدیداران اور مزاروں وغیرہ کے دربان و نگران حضرات میں تقسیم کیا جاتا۔‘‘ (دیکھئے: صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ، ج۳/ ص۴۹۸ تا ۴۹۹) بدعت ِمیلاد سے متعلقہ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الابداع في مضار الابتداع (ص۱۲۶) از شیخ علی محفوظ، البدعۃ ضوابطھا وأثرھا السیئۃ في الأمۃ (ص ۱۶تا۲۱) از ڈاکٹر علی بن محمد ناصر، القول الفصل في حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل (ص۶۴ تا ۷۲) از شیخ اسماعیل بن محمد الانصاری، المحاضرات الفکریۃ، ص۸۴ از سیدعلی فکری … وغیرہ بدعت ِمیلاد ؛ مصر کے فاطمیوں سے عراق (اِربل و موصل) کے سنّیوں تک عیدوں اور میلادوں کا جو سلسلہ مصر کے رافضی حکمرانوں نے ایجاد کیا تھا، وہ اگرچہ خلیفہ افضل بن امیر الجیوش نے اپنے عہد ِحکومت میں ختم کردیا مگر اس کے مضر اثرات اطراف واکناف میں پھیل چکے تھے۔ حتیٰ کہ رافضی شیعوں سے سخت عداوت رکھنے والے سنی بھی ان کی دیکھا دیکھی عیدمیلاد منانے لگے۔ البتہ سنیوں نے اتنی ترمیم ضرور کرلی کہ شیعوں کی طرح میلادِ علی رضی اللہ عنہ ، میلادِ حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ وغیرہ کی بجائے صرف میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر زور دیا۔ چنانچہ ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المعروف ابوشامہ کے بقول : ’’وکان أول من فعل ذلک بالموصل الشیخ عمر بن محمد الملا أحد الصالحین المشھورین وبہ اقتدی فی ذلک صاحب إربل وغیرہ‘‘ (الباعث علی انکار البدع والحوادث ص۲۱) ’’(سنیوں میں سے) سب سے پہلے موصل شہر میں عمر بن محمد ملا نامی معروف زاہد نے میلاد منایا۔ پھر اس کی دیکھا دیکھی ’اربل‘کے حاکم نے بھی (سرکاری طورپر) جشن میلاد منانا شروع کردیا۔‘‘