کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 47
ظاہر و باطن میں نجاست کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ ان کے دورِ حکومت میں منکرات و بدعات ظہور پذیر ہوئیں … سلطان صلاح الدین ایوبی نے ۵۶۴ ہجری میں مصر پر چڑھائی کی اور ۵۶۸ ہجری تک ان کا نام و نشان مٹا دیا۔‘‘ (البدایۃ والنھایۃ : ۱۱/۲۵۵ تا ۲۷۱) بدعت ِعیدمیلاد اور میلاد حسن و حسین کے موجد یہی فاطمی شیعہ تھے اس کے ثبوت کے لئے چند حوالہ جات ذکر کئے جاتے ہیں : 1. مصر ہی کے ایک معروف مفتی علامہ محمد بخیت اپنی کتاب ’’أحسن الکلام فیما یتعلق بالسنۃ والبدعۃ من الأحکام‘‘ میں صفحہ ۴۴،۴۵پر رقم طراز ہیں کہ ’’إن أول من أحدثھا بالقاھرۃ الخلفاء الفاطمیون وأولھم المعز لِدین ﷲ توجہ من المغرب إلی مصر فی شوال سنۃ (۳۶۱ھ) إحدی وستین وثلاث مائۃ ھجریۃ …‘‘ ’’سب سے پہلے قاہرہ (مصر) میں عید ِمیلاد فاطمی حکمرانوں نے ایجاد کی اور ان فاطمیوں میں سے بھی المعزلدین اللہ سرفہرست ہے۔ جس کے عہد ِحکومت میں چھ میلاد ایجاد کئے گئے یعنی میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ، میلادِ علی رضی اللہ عنہ ، میلادِ فاطمہ رضی اللہ عنہا ، میلادِ حسن رضی اللہ عنہ ، میلادِ حسین رضی اللہ عنہ ، اور حاکم وقت کا میلاد… یہ میلاد بھرپور رسم و رواج کے ساتھ جاری رہے حتیٰ کہ افضل بن امیر الجیوش نے بالآخر انہیں ختم کیا۔‘‘ 2. علامہ تقی الدین احمد بن علی مقریزی اس بدعت کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں : ’’کان للخلفاء الفاطمیین فی طول السنۃ أعیاد ومواسم وھی موسم رأس السنۃ وموسم أول العام ویوم عاشوراء ومولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومولد علی بن أبی طالب ومولد فاطمۃ الزھرأ ومولد الحسن ومولد الحسین ومولد الخلیفۃ الحاضر‘‘ (المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار:ج۱/ ص۴۹۰) ’’فاطمی حکمران سال بھر میلاد، تہوار اور جشن مناتے رہتے۔اس سلسلے میں ہر سال کے آغاز (New year) پر اور عاشورا کے روز جشن منایا جاتا۔ اسی طرح میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، میلادِ علی رضی اللہ عنہ ، میلاد فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ، میلادِ حسن رضی اللہ عنہ ، میلاد حسین رضی اللہ عنہ اور حاکم وقت کا میلاد بھی منایا جاتا۔‘‘ 3. علامہ ابوالعباس احمد بن علی قلقشندی بھی اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :