کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 46
جس تاریخ کو خوشیاں مناتے ہیں ، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدائش نہیں بلکہ یوم وفات ہے! اگر یہ جشن ولادت ہے تو تب بھی بدعت ہے ! اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ۱۲/ ربیع الاول ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت ہے تو تب بھی اس تاریخ کو جشن عید اور خوشیاں منانا اور اسے کارِ ثواب سمجھنا از روئے شریعت درست نہیں کیونکہ جب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کا ’جشن‘ نہیں منایا، کبھی ’عیدمیلاد‘ کا انتظام یا حکم نہیں فرمایا، نہ ہی صحابہ کرام نے کبھی یہ خود ساختہ ’عیدمیلاد‘ منائی اور نہ تابعین ، تبع تابعین، مفسرین ، محدثین اور ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ) سے اس کا کوئی ثبوت فراہم ہوتا ہے تو لامحالہ یہ دین میں اضافہ ہے جسے آپ بدعت کہیں یا کچھ اور… بہرصورت اگر اسے کارِ ثواب ہی قرار دینا ہے تو پھر اس ہٹ دھرمی سے پہلے اعلان کردیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام صحابہ، تابعین، تبع تابعین وغیرہ اس ثواب سے محروم رہے اور ہم گنہگار (نعوذ باللہ) ان عظیم لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں ! بدعت ِعیدمیلاد کا موجد کون؟ عیدمیلاد کاجشن سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں رافضی و غالی شیعہ جنہیں فاطمی بھی کہا جاتا ہے، نے حب ِنبوی اور حب ِاہل بیت کی آڑ میں اس وقت جاری کیا جب انہیں مصر میں باقاعدہ حکومت و اقتدار مل گیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف’ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کا تہوار جاری کیا بلکہ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ’میلاد‘ بھی سرکاری سطح پر جاری کئے۔اس کے ثبوت اور حوالہ جات سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان فاطمیوں اور رافضیوں کے عقائد و اعمال پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ ’’یہ کافر و فاسق، فاجر و ملحد، زندیق و بے دین، اسلام کے منکر اور مجوسیت و ثنویت کے معتقد تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا، زنا کو جائز، شراب اور خون ریزی کو حلال قرار دیا۔ یہ دیگر انبیا کو گالیاں دیتے اور سلف صالحین پر لعن طعن کرتے تھے۔‘‘ نیز لکھتے ہیں کہ ’’فاطمی خلفاء بڑے مالدار، عیاش اور جابر و سرکش تھے۔ ان کے