کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 45
لابن حبان: ص۴۰۴) 7. امام نووی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ (شرح مسلم :۱۵/۱۰۰) 8. مؤرخ و مفسر ابن جریر طبری نے بھی ۱۲/ ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دیا ہے۔ (تاریخ طبری:۲۰۷/۳) 9. امام بیہقی کی بھی یہی رائے ہے۔ (دلائل النبوۃ: ۲۲۵/۷) 10. ملا علی قاری کا بھی یہی فیصلہ ہے ۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ۱۰۴/۱۱) 11. سیرت نگار مولانا شبلی نعمانی کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ (سیرت النبی: ص۱۸۳/ج۲) 12. قاضی سلیمان منصور پوری کی بھی یہی رائے ہے۔ (رحمۃ للعالمین:ص۲۵۱ ج۱) 13. صفی الرحمن مبارکپوری کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ (الرحیق: ص۷۵۲) 14. ابوالحسن علی ندوی کی بھی یہی رائے ہے۔ (السیرۃ النبویۃ: ص۴۰۴) 15. مولانا احمد رضا خان بریلوی کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲ ربیع الاوّل کو فوت ہوئے۔ (ملفوظات) ایک اور تاریخی حقیقت گذشتہ حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ۱۲/ ربیع الاول یومِ ولادت نہیں بلکہ یوم وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور برصغیر میں عرصۂ دراز تک اسے ’۱۲ وفات‘ کے نام ہی سے پکارا جاتا رہا ہے۔ اس دن جشن اور خوشی منانے والوں پرجب یہ اعتراض ہونے لگے کہ یہ تو یوم وفات ہے اور تم وفات پر شادیانے بجاتے ہو!… تو اس معقول اعتراض سے بچنے کے لئے کچھ لوگوں نے اس کا نام ’۱۲ وفات‘ کی بجائے ’عیدمیلاد‘ رکھ دیا جیسا کہ روزنامہ ’مشرق‘ لاہور کی ۲۶/ جولائی ۱۹۸۴ء کی درج ذیل خبر سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے : ’’اس سے پیشتر یہ یوم بارہ وفات کے نام سے منسوب تھا مگر بعد میں انجمن نعمانیہ ٹکسالی گیٹ کے زیر اہتمام پیر جماعت علی شاہ ، مولانا محمد بخش مسلم، نور بخش توکلی اور دیگرعلما نے ایک قرار داد کے ذریعے اسے ’میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کا نام دے دیا۔‘‘ قصہ مختصر کہ اس روز جشن اور خوشیاں منانے والوں کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ وہ