کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 44
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی صحیح تاریخ ۹ ربیع الاول ہی قرار پاتی ہے اور شمسی عیسوی تقویم کے حساب سے یومِ ولادت کا وقت ۲۰ /اپریل ۵۷۱ء بروز پیر کی صبح قرار پاتا ہے۔‘‘ (بحوالہ محاضراتِ تاریخ الامم الاسلامیہ از خضری بک :ص۶۲ ج۱/ حدائق الانوار:ص۲۹ /ج۱) 2. رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ میں اوّل انعام پانے والی کتاب ’الرحیق المختوم‘ کے مصنف کے بقول ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر ۹/ ربیع الاول سن۱، عام الفیل یوم دو شنبہ (سوموار) کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔‘‘ (ص:۱۰۱) 3. برصغیر کے معروف مؤرخین مثلاً علامہ شبلی نعمانی، قاضی سلیمان منصور پوری، اکبر شاہ نجیب آبادی وغیرہ نے بھی ۹/ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو ازروئے تحقیق ِجدید صحیح ترین تاریخ ولادت قرار دیا ہے۔ (دیکھئے:سیرت النبی از شبلی نعمانی : ص۱۷۱/ ج۱/تاریخ اسلام از اکبر شاہ :ص۸۷ /ج۱/رحمۃ للعالمین از منصور پوری: ص۳۶۱ /ج۲) ۱۲ ربیع الاول یوم وفات ہے ! جمہور مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۱۲/ ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ہے۔ بطورِ مثال چند ایک حوالہ جات سپردِ قلم کئے جاتے ہیں : 1. ابن سعد، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو فوت ہوئے۔ (طبقات ابن سعد : ص۲۷۲ ج۲) 2. حافظ ذہبی نے بھی اسے نقل کیا ہے ۔ (دیکھئے تاریخ اسلام از ذہبی: ص۵۶۹) 3. حافظ ابن کثیر ابن اسحق کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲/ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔ (البدایۃ والنھایۃ: ۲۵۵/۵) 4. مؤرخ ابن اثیر رقم طراز ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲/ ربیع الاول بروز سوموار فوت ہوئے۔ (اسدالغابۃ: ۴۱/۱/الکامل:۲۱۹/۴) 5. حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے ہی جمہور کا موقف قرار دیا۔ (فتح الباری ۲۶۱/۱۶) 6. محدث ابن حبان کے بقول بھی تاریخ وفات ۱۲ ربیع الاول ہے۔ (السیرۃ النبویۃ