کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 43
یومِ ولادت کی تاریخ تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سوموار کے دن ہوئی جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ذاک یوم ولدت فیہ ویوم بعثت أو أنزل علی فیہ‘‘ ’’یہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا۔‘‘ (مسلم: کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام ؛۱۱۶۲) البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل (یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے بیت اللہ شریف پر حملہ کیا)میں پیدا ہوئے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس میں بھی اختلاف نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے روز پیدا ہوئے۔ نیز لکھتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا۔ پھر حافظ ابن کثیر نے ان اقوال میں سے دو کو راجح قرا ردیا، ایک بارہ اور دوسرا آٹھ اور پھر خود ان دو میں سے آٹھ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو راجح قرار دیا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ص۲۵۹ تا ۲۶۲/ ج۲) علاوہ ازیں بہت محققین نے ۱۲ کی بجائے ۹ ربیع الاول کو یومِ ولادت ثابت کیا ہے ، مثلاً 1. قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت دان:قسطنطنیہ (استنبول) کے معروف ماہر فلکیات اور مشہورہیئت دان محمود پاشا فلکی نے اپنی کتاب ’التقویم العربی قبل الاسلام‘ میں ریاضی کے اصول و قواعد کی روشنی میں متعدد جدول بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ’’عام الفیل ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار کی صحت کو پیش نظر اور فرزند ِرسول ’حضرت ابراہیم علیہ رضی اللہ عنہ ‘ کے یومِ وفات پرسورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے تو