کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 42
’’جس نے میری سنت سے روگردانی کی، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘ تیسری عید کہاں سے آئی؟ ۱۲/ ربیع الاول کو نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کی خوشی منائی جاتی ہے بلکہ اسے تیسری ’عید‘ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں صرف دو عیدیں (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہیں ۔ ان دو عیدوں کو خوشی کا تہوار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود اسی طرح مقرر فرمایا ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال و حرام کو متعین فرمایا ہے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ خوشی کے دو تہوار منایا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر انہوں نے کہا کہ قدیم دورِ جاہلیت سے ہم اسی طرح یہ تہوار مناتے آرہے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إن اللہ قد أبدلکم بھما خیرا منھما یوم الأضحٰی ویوم الفطر‘‘ (ابوداود: کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین ؛۱۹۳۱) ’’اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو خوشی کے دن عطا فرمائی ہیں ؛ ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی ہے۔‘‘ ان دونوں عیدوں کے موقع پر باادب طریقہ سے نمازِ عید ادا کی جاتی اور اللہ کا شکر بجا لایا جاتا ہے۔ نیز عیدالاضحی کے موقع پر جانور قربان کئے جاتے ہیں ، مگر ۱۲/ ربیع الاول کی ’عیدمیلاد‘ کو اوّل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر ہی نہیں فرمایا پھر اسے عید قرار دینے والے اس روز نمازِ عید کی طرح کوئی نماز ادا نہیں کرتے اور نہ ہی عیدالاضحی کی طرح قربانیاں کرتے ہیں اور فی الواقع ایسا کیا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ یہ ’عید‘ ہے ہی نہیں مگر اس کے باوجود اسے عید ہی قرار دینا بے جا تحکم، ہٹ دھرمی اور شریعت کی خلاف ورزی نہیں تو پھر کیا ہے؟ یہ جشن ِولادت ہے یا جشن ِوفات؟ ۱۲/ربیع الاول کے حوالہ سے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا دن ہے حالانکہ ۱۲ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے پر مؤرخین کا ہرگز اتفاق نہیں ۔ البتہ اس بات پر تقریباً تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ ۱۲/ ربیع الاول کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ جیسا کہ مندرجہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے :