کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 41
ہوتا ہے کہ سردست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اسکے معیار و تقاضے پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا معیار اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی قلبی محبت جزوِایمان ہے اور وہ بندہ ایمان سے تہی دامن ہے جس کا دل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے خالی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں ۔‘‘ (بخاری: کتاب الایمان: باب حب رسول من الایمان؛۱۴) صحیح بخاری ہی کی دوسری حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار کہلانے کا مستحق نہیں جب تک کہ اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے دل میں میری محبت نہ پیدا ہوجائے۔‘‘ (ایضاً ؛۱۵) لیکن اس محبت کا معیار اور تقاضا کیا ہے؟ کیا محض زبان سے محبت کا دعویٰ کردینا ہی کافی ہے یا اس کے لئے کوئی عملی ثبوت بھی مہیا کرنا ہوگا؟ صاف ظاہر ہے کہ محض زبانی دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے ساتھ عملی ثبوت بھی ضروری ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے شخص کے جسم و جان پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات کی حاکمیت ہو، اس کا ہر کام شریعت نبوی کے مطابق ہو، اس کا ہر قول حدیث ِنبوی کی روشنی میں صادر ہوتا ہو۔ اس کی ساری زندگی اللہ کے رسول کے اُسوۂ حسنہ کے مطابق مرتب ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری ہی کو وہ معیارِ نجات سمجھتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کو موجب ِعذاب خیال کرتا ہو۔ لیکن اگر اس کے برعکس کوئی شخص ہر آن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کرتا ہو اور آپ کی سنت و ہدایت کے مقابلہ میں بدعات و رسومات کو ترجیح دیتا ہو تو ایسا شخص ’عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘ اور حب ِرسول کا لاکھ دعویٰ کرے یہ کبھی اپنے دعویٰ میں سچا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اپنے تئیں سچا سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے مگر اللہ کے رسول ایسے نافرمان اور سنت کے تارک سے بری ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’فمن رغب عن سنتي فلیس مني‘‘ (بخاری؛۵۰۶۳)