کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 40
نقد ونظر مبشر حسین لاہوری عید میلاد کی تاریخ و ارتقا اور مجوزین کے دلائل بلاناغہ ہر سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ’عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘کے نام پر جشن منایا جاتا ہے۔ ربیع الاول کے شروع ہوتے ہی اس جشن میلاد کی تقریبات کے انتظامات شروع ہوجاتے ہیں ۔ نوجوان گلی کوچوں اور چوراہوں میں راہ گیروں کا راستہ روک کر زبردستی چندے وصول کرتے ہیں ۔ علما حضرات مسجدوں میں جشن ولادت منانے کے لئے دست ِسوال دراز کرتے ہیں ۔ پھر بارہ ربیع الاول کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی مناسبت سے جلوس نکالے جاتے ہیں ، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، پرتکلف دعوتوں کا اہتمام کیا جاتااور گلیوں ، بازاروں ، گھروں اور مسجدوں میں چراغاں کیا جاتا ہے، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں ، تانگوں ، گدھا گاڑیوں اور بسوں میں سوار ہوکر پورے ملک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ جشن، یہ میلاد اور یہ سلسلۂ تقریبات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اظہار کا ذریعہ گردانا جاتا ہے اس لئے چاروناچار حب ِرسول سے سرشار ہر پیروجوان حسب ِحیثیت اس میں شمولیت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ گورنمنٹ بھی عوام کے جذبات کا خیال رکھتے اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا احترام کرتے ہوئے سرکاری طور پر چھٹی کا نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ حکومتی سطح پر بڑی بڑی سیرت کانفرنسوں کا بھی انعقاد کرتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار بجاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و احترام کا جذبہ بھی قابل تحسین ہے … مگر دیکھنا یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ طریقہ اور جشن و جلوس کا یہ سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی رو سے جائز بھی ہے یا نہیں …؟ شریعت کی عدالت میں اس کی کوئی حیثیت بھی ہے یا نہیں ؟ اور اللہ کی بارگاہ میں یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں …؟! عید ِمیلاد چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جذبہ سے منائی جاتی ہے۔ اسلئے مناسب معلوم