کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 4
دیا جاتا ہے وہ اسلام کا نام لیوا طبقہ ہے، جو اس اسلام کو اپنے ہاں نافذ کرنا چاہتا اور ا س کی برکات سے متمتع ہونا چاہتا ہے جسے محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے۔مغربی ذرائع ابلاغ انہیں فنڈامنٹلسٹ کا طعنہ دیتے ہیں جس میں حالیہ برسوں میں دہشت گرد کے’ اعزاز‘ کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ گویا راسخ العقیدہ مسلمان اور دہشت گردی اس نئے دور میں لازم وملزوم متصور ہوتے ہیں !!
پچھلی صدیوں کو موجودہ زمانہ سے یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ تب خلافت ِاسلامیہ کے تحت مسلمان تمام مصائب کے لئے اکٹھی آواز بلند کرنے کا کوئی تصور اور پلیٹ فارم رکھتے تھے، اب اقوامِ متحدہ نے مختلف قومیتوں اور رنگ و نسل میں بانٹ کر اور اسے تقدس عطا کرکے ہمیں جسد واحد بننے سے روک رکھا ہے۔ جدید تعلیم اور ذرائع ابلاغ نے اس طرح ہماری ذہن سازی کردی ہے کہ اُمت کے نام پر اتحاد مسلمانوں کو ایک دقیانوسی تصور معلوم ہوتا ہے۔
الغرض شکاری پرانے ہیں اور شکار بھی وہی لیکن جال نیا ہے اور ہتھکنڈے بھی زیادہ پرفریب! دوسری طرف امریکہ تو ۵۰ ریاستیں ہوکر بھی ایک ریاست ہے، یورپ میں بھی ریاست کا تصور انتظامی حد بندی وغیرہ کے لئے ہے جبکہ ویزا، کرنسی اور تجارت بالکل آزاد، لیکن مسلمانوں کے مغرب برانڈ حکمران اپنی اپنی بادشاہت چمکانے کے لئے مختلف ریاستوں میں بٹے ہوئے ہیں ، باہمی تجارت بھی یورپ کی تجارتی تنظیموں کے توسط سے کرتے ہیں اور کرنسی کا تبادلہ بھی ڈالرز میں ۔ملوکیت کا چسکا بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹے رکھنے کے لئے ان میں برقرار ہے اور یہ ملوکیتیں مغربی استعمار کو بالکل نہیں کھٹکتیں کیونکہ یہاں ان کا مفاد اسی طرح ہی پورا ہوتا ہے کہ وہ انہیں کمزور رکھ کرتحفظ کے نام پر ان سے منہ مانگی قیمت وصول کریں اور جب چاہیں ان کے تحفظ پر آئی افواج سے کسی ایک مسلمان ملک کی گردن دبوچ کر اس پر قابض ہوجائیں ۔
ترقی یافتہ دنیا کی تہذیب اور قانون پسندی بھی ایک ڈھونگ ہے۔ انہوں نے اپنے ہم وطنوں کے لئے عزت وتکریم کا جو خوبصورت تصور پیش کیا اور اسے عملاً اپنے ممالک میں قائم کرکے دکھا یا ہے لیکن قوموں کی برادری میں وہ مساوات اور عزت کی پاسداری ایک فریب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔ اپنے ملک میں جو یورپی تہذیب و قانون پسندی کا مظاہرہ کرتے