کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 38
بھی حرام ہے۔‘‘ افسوس صد افسوس! او رکیا حضرت پاپاے روم جو بادشاہ سے بھی بڑے محلوں میں رہتے ہیں اور جن کی رہائش کا خرچ شاہِ اٹلی سے بھی زیادہ ہے، مسیح کی بادشاہت میں داخل ہونے کے اُمیدوار ہیں ۔ اگر یہ سب مشنری صاحبان مسیح کی اس تعلیم پر عمل کرنے لگیں تو دنیا بہت جلد ان کے وجود سے خالی ہوجائے۔ کیا ہی اچھی تعلیم ِمکافات و مجازات مندرجہ ذیل آیات میں دی گئی ہے : ’’ٹھوکروں کے سبب دنیا پر افسوس ہے، کیونکہ ٹھوکروں کا لگنا ضروری ہے۔ پس اگر تیرا ہاتھ یا تیرا پاؤں تجھے ٹھوکر کھلائے تو اسے کاٹ کر پھینک دے۔ ٹنڈا یا لنگڑا ہوکر زندگی میں داخل ہونا تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ دو ہاتھ یا دو پاؤں کے ہوتے تو ہمیشہ کی آگ میں ڈال دیا جائے۔ اگر تیری آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اسے نکال کر پھینک دے۔کانا ہو کرزندگی میں داخل ہونا تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ دو آنکھیں ہوتے تو آگ کے جہنم میں ڈال دیا جائے۔‘‘ (انجیل متی: باب ۱۷/ آیات ۸،۹) آج کل کتنے پادریوں کا (باقی مسیحیوں کا تو کیا کہنا) اس تعلیم پر عمل ہے اور ان میں سے کتنے ٹنڈے ، لنگڑے، لولے اور کانے نظر آتے ہیں یا شائد فائر پروف پردوں کی ایجاد کے باعث آتش جہنم سے بے خوف ہوگئے ہیں ؎ مشکلے دارم ز دانشمند مجلس باز پرس توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمترمے کنند العجب ثم العجب! وہ تعلیم جسے خود پادری صاحبان بے کار و ناقابل عمل سمجھ کر ردّی کی ٹوکری میں پھینک چکے ہیں ۔اسے بھی پادری صاحبان دنیا کے سامنے پیش کرنے سے نہیں شرماتے۔ ﴿بِئْسَ مَا یَأْ مُرُکُمْ بِہٖ اِیْمَانُکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مَّؤْمِنِیْنَ﴾ (البقرۃ: ۹۳) ’’اگر تمہیں ایمان کا دعویٰ ہے تو تمہارا ایمان تمہیں بڑی بری بات کا حکم دیتا ہے۔‘‘ ع دین پر حیف ہے گر دین کا منشا ہے یہی کیا اس تعلیم کامقابلہ تعلیم قرآنی سے کریں ؟ ع چہ نسبت خاک را باعالم پاک ان پادری صاحبان کی کور باطنی و بے شرمی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ یہ اس تعلیم کا مقابلہ قرآنِ حکیم کی تعلیم سے کرنے سے نہیں شرماتے۔ اگر یہ لوگ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھ