کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 37
اخلاقی یا معاشی تعلیم ہے اور جو ہے بھی پراگندہ و پریشان اور اس کی وہی مثال ہے کہ کوئی الف لیلہ یا فسانہ عجائب سے اچھے اچھے فقرات جمع کرکے ان کو مجموعہ اخلاق بنالے۔ لیکن تاہم جس قدر بھی ہے، ہم اسی کو لیتے ہیں وہ اس قدر ناقابل عمل ہے کہ ہر مسیحی اس وقت اس کی عملاً تردید کررہا ہے اور بزبانِ حال و قال اس کے غلط ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔ یہاں تک کہ مسیحیوں کے روحانی ناخدا عملاً اس کی تکذیب کر رہے ہیں ۔ دنیائے مسیحیت میں شائد پاپاے روم سے بڑا رومن کیتھولکس میں اور آرک بشپ آف کنٹربری اور آرک بشپ آف یارک سے بڑا پروٹسٹنٹ میں مذہبی عہدہ دار نہیں ہوتا اور وہ بقول مسیحیوں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانشین ہیں ۔ اب مسیح تو انجیل میں پکار پکار کر فرما رہے ہیں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں سے گزرنا آسان ،لیکن دولت مند کا خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا ناممکن ہے۔(متی: باب۱۹/ آیت ۲۴) اور ایک نوجوان دولت مند کو جو ہر طرح سے قانون پر عامل تھا، حکم دیتے ہیں کہ تو میرا رفیق نہیں ہوسکتا، تاوقتیکہ اپنا سب مال و دولت اور سامانِ عیش و عشرت لٹا کر فقیر بن کر میرے ساتھ نہ ہولے۔ (متی: باب ۹۱/ آیات ۲۰،۲۱) اور آرک بشپ آف کنٹربری اوریا رک، چین سے پندرہ پندرہ ہزار پونڈ سالانہ ہضم کررہے ہیں ۔ موٹروں پر سواری کرتے ہیں ، محلوں میں رہتے ہیں ۔ حالانکہ ہزاروں نہیں ،لاکھوں بندگانِ خدا ان کی آنکھوں کے سامنے غریب خانوں میں گرسنگی سے پڑے دم توڑ رہے ہوتے ہیں ۔ کیاآرک بشپ آف کنٹربری اور آرک بشپ آف یارک خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کے اُمیدوار ہیں او رکیا تمام مسیحی پادری صاحبان جو ہرماہ نوٹوں کی بھری ہوئی تھیلیاں اور روپیوں اور اشرفیوں سے بھری ہوئی پوٹلیاں لے جاکر چین سے تمام مہینہ مزے لوٹتے ہیں اور گو شت و مرغ اُڑاتے ہیں ، مسیح کی تعلیم کے مطابق خدا کی بادشاہت میں داخل ہوسکیں گے؟ اور کیا وہ بقول حضرت مسیح ’’جو ایک دن کی کمائی میں سے دوسرے دن کے لئے رکھتا ہے، وہ میرا پیرونہیں ‘‘ (متی) اور کیا یہ سب صاحبانِ ،مسیح کی اس تعلیم پر عمل کرتے ہیں جو انجیل متی باب۶ میں خدا پر بھروسہ رکھنے کے بارے میں دی گئی ہے اور جس میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ ’’صبح کی روٹی کھانے کے وقت شام کے کھانے کو جمع کرنا، باقی رکھنا