کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 36
کہ اسلام کے شدید ترین اَعدا کو بھی انکار نہیں ۔ چنانچہ سرولیم میورلیکی وغیرہ کو بھی اس کے اقرار کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا۔ والفضل ما شہدت بہ الأعداء اور کیوں نہ ہو کہ قرآن مجید نے اس قدر شرح و بسط کے ساتھ اقسامِ شرک کی بحث کی ہے اور توحید ِالٰہی کو اس قدر مختلف اَسالیب میں بیان فرمایا ہے کہ شرک و توحید میں آمیزش ناممکن ہے او رجاہل سے جاہل آدمی سے لے کر عالم سے عالم تک کے لئے یکساں ایسا واضح کردیاکہ سب یک زبان ہوکر پکار اٹھے کہ ؎ کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق زبان اور دل کی شہادت کے لائق قرآنِ کریم کی آیات ملاحظہ ہوں : ﴿وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاٗہ﴾ (الاسراء: ۲۳) ’’ تیرے پالنے والے نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ تم سوائے اس کے اور کسی کی پرستش نہ کرو‘‘ ﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ، اَمَرَالَاَّ تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہٗ ﴾(یوسف:۴) ’’حکم محض اللہ کیلئے ہے، اس نے حکم کیا ہے کہ سوائے اس کے تم کسی کی پرستش نہ کرو۔‘‘ قرآنِ حکیم کے مباحث ِتوحید اس قدر دلکش اور گوناگوں واقع ہوئے ہیں کہ اس مختصر بحث میں ان کی گنجائش نہیں ۔ یہاں تو فقط مقابلہ کرنا مقصود تھا، سو اسی سے واضح ہوگیا کہ عقائد کی تعلیم میں مسیحی تعلیم اسلامی تعلیم کے مقابلہ میں بالکل فیل ہوگئی اور قرآنی تعلیم، انجیلی تعلیم سے اس لحاظ میں افضل و اعلیٰ ٹھہری۔ عقائد کے بعد عبادات کا درجہ آتا ہے۔ سو اس میں خیر سے اناجیل اربعہ اور باقی کا عہد نامہ جدید بالکل کورے ہیں ۔ چونکہ مسیح علیہ السلام اپنی اُمت کے گناہوں کا کفارہ ہو کرصلیب پر چڑھ گیا، اس لئے اس کی اُمت کو نہ عبادات کی ضرورت ہے نہ اخلاق کی۔ پس عبادات کی تعلیم کا مقابلہ ہی بے سود ہے۔ انجیل کی اخلاقی اور معاشی تعلیم اب باقی کی تعلیم کو لیں ۔ باقی ماندہ تعلیم ِانجیل میں یہ بھی تو نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی خاص