کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 35
ایسا کامل و مکمل نمونہ ہو کہ جس جگہ اس مذہب کے اُصول و فروع میں ا ختلاف پیداہو، اس کی زندگی کی طرف مرافعہ کرنے سے وہ اختلاف و نزاع رفع ہوسکے!! تعلیم انجیل اب تعلیم انجیل کولیجئے۔ تعلیم انجیل چہ جائیکہ ایک کامل مذہبی تعلیم ہو، اس میں توحید ہی کی تعلیم اس قدر ناقص و عسیر الفہم ہے کہ خود انجیل کے مصنف کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ توحید کیا چیز ہے؟ یہی وجہ ہے کہ خود عیسائیوں میں دو فرقے ہیں ۔ ایک اپنے آپ کو موحد اور حضرت عیسیٰ کو ’ربی‘ یعنی نبی مانتا ہے اور دوسرا اپنے آپ کو تثلیث پرست اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوابن اللہ مانتا ہے اور دونوں موجودہ اناجیل سے استنادو استشہاد کرتے ہیں اور وہ دونوں اس استناد میں سچے ہیں ۔ خود مؤلفین اناجیل کو معلوم نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیا ہیں :نبی ہیں یا ابن اللہ؟ چنانچہ کہیں تو وہ یہ لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے تئیں ابن آدم کے نام سے موسوم کیا۔ (انجیل متی:باب / ۹ آیت۶ و باب ۱۷/ آیات ۲۲ و ۲۳) بالخصوص مؤخر الذکر یہ بقول مؤلفین اناجیل ان کے قریباً آخری الفاظ ہیں جن میں وہ اپنی صلیب پر لٹکائے جانے کی پیشین گو ئی کرتے ہیں ۔ او رکہیں یہ کہ انہوں نے اپنے آپ کو ابن اللہ اور خدا کو باپ کے نام سے موسوم کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ خطاب ابن اللہ سے اپنے تئیں منسوب کرنا از قسم استعارہ تھا۔جیسے کہ تمام نسل اسرائیل کو تورات میں خدا کے بیٹوں ، یعنی ابناء اللہ کے نام سے پکارا گیا ہے او راناجیل کے مجہول مؤلفین نے ان کو لفظاً و معناً ابن اللہ بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عقیدۂ توحید جواصل اساسِ مذہب ہے، عیسائیوں کے ہاں بالکل ایک چیستان و معمہ رہ گیا ہے۔ انسانی دماغ تو جب تک اپنی تئیں معطل نہ کردے اسے باور نہیں کرسکتا۔ تمام یورپ کی مذہب سے برگشتگی کا سبب زیادہ تر یہی پیچیدہ ولا ینحل عقیدۂ توحید ہے اور جس قدر گمراہی از قسم عقائد تثلیث و کفارہ وغیرہ مسیحی مذہب میں داخل ہوگئی، وہ سب اسی غیر واضح تعلیم کا نتیجہ ہے۔ قرآنِ مجید کی تعلیم برعکس اس کے قرآن مجید نے توحید کی تعلیم کواس قدر صاف صاف اور واضح طورپر کیا ہے