کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 34
ایچ جی ویلز اپنی تازہ ترین تصنیف ’خدا یعنی شہنشاہ غیرمرئی‘ میں عہد نامہ جدید کی تکمیل کی نسبت یوں رقم طراز ہیں :
’’ہماری رائے میں نائی سیاکی کونسل جس نے بالجبر دو صد سالہ مذہبی قضیوں کے نپٹانے کے لئے ان عقائد کو وضع و مرتب و متشکل کیا جن پر کہ تمام موجودہ مسیحی فرقوں کی بنیاد ہے، سب سے زیادہ مذموم اثرات پیداکرنے والااور سب سے زیادہ قابل نفرین و لعنت مذہبی مجمع تھا۔او رہمارا خیال ہے کہ اسکندریہ کے فیلسوفانہ تخیلات جو اس وقت زبردستی مسیحیت کے سر تھوپے گئے (یعنی مسیحی عقائد میں داخل کرلئے گئے، از قسم تثلیث وکفارہ) موجودہ زمانہ میں نہایت نفرت سے یاد کئے جانے کے قابل ہیں ۔ ‘‘ (صفحہ ۶، دیباچہ)
پس موجودہ مسیحی مذہب کو مذہب ِعیسوی کہنا حضرت عیسیٰ جیسے پاک نبی کی درحقیقت توہین کرنا ہے، لیکن چونکہ اس وقت ہمارا روئے سخن موجودہ عیسائیوں کی طرف ہے جوعہد نامہ جدید کو الہامی اورجملہ شرائع سابقہ کاناسخ یقین کرتے ہیں اور اس کے ایک ایک حرف اور ایک ایک لفظ کو اِلہامی من جانب اللہ ہونے کادل و جان سے ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، اس لئے ہم انہی عقائد کے مطابق حضرت مسیح کی تعلیم ِانجیل اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم قرآن کو لے کر مقابلہ کرتے ہیں ۔ طول طویل مقالات کی یہاں گنجائش کہاں ، ہم چند مختصر جملوں میں ہی یہ جھگڑا طے کرتے ہیں :
مذہب کیا ہے اور اس کی تعلیم کیا ہونی چاہئے؟ ا س کا مختصر جواب یہ ہے کہ مذہب اس راستہ کو کہتے ہیں جو انسان کی معاشرتی، اخلاقی منزل و تمدنی زندگی کی رہبری کے لئے ایک کامل ومکمل ضابطہ ،آئین و قواعد پیش کرے ،جن کی بنیاد خدا اور اس کے بندوں کے حقیقی تعلقات، یعنی توحید ِالٰہی پر استوار ہو۔ جس طرح بغیر معتقدات و عباداتِ صحیحہ کے مذہب کا قیام ناممکن ہے، اسی طرح بغیرمعاشی، تمدنی ، اقتصادی اور اخلاقی آئین و ضوابط کے وہ غیر مکمل اوربے سود ہے اور مکمل مذہب وہی ہے جو ایک طرف تو خدا کی کامل توحید کا سبق دے، دوسری طرف ایک ایسا مکمل اور جامع قانون بنی نوع کے ہر شعبہ زندگی کی ہدایت کے لئے دے جو اس کو کسی اور قانون کی احتیاج سے مستغنی کردے اور ساتھ ہی ساتھ اس مذہب کا حامل، یعنی رسول و نبی اس مذہب کی تعلیمات کا