کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 33
کے مشہور ترین حواری)برنباس او رپطرس بھی اس خیال کی رومیں بہہ گئے تھے (کہ مسیحیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے،بلکہ موسویت کے احیاء و تجدید کا دوسرا نام ہے) کہ خدانے (یا شیطان نے جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی زندگی میں گمراہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا (متی : باب ۴/ آیات ۱ تا ۶) اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس بے وقت اُٹھ جانے اور آپ کے متبعین کے اس طرح بے یارومددگار اور متزلزل و خائف رہ جانے پر انہیں گمراہ کرنے اور اپنا پرانا غصہ نکالنے اور اپنی پہلی ناکامی کے انتقام لینے کااچھا موقعہ ہاتھ آیا تھااور اس نے سینٹ پال کو اپنا آلہ بنایا۔ [بقولِ قرآن] ﴿اِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰی اَوْلِیَاءِ ھِمْ﴾ سینٹ پال کومبعوث کیا، جس نے مسیحیت کی گرتی ہوئی عمارت کوتھام لیا۔‘‘ (سالانہ رپورٹ چرچ مشنری سوسائٹی بابت سال ۱۹۱۵، صفحہ۸۸ ) انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں ’بائبل‘ کے آرٹیکل کا فاضل محرر زیر عنوان ’عہد نامہ جدید‘ لکھتا ہے: ’’یسوع مسیح علیہ السلام اور ان کے حوا ریوں کی بائبل (مذہبی کتاب) فقط عہد نامہ عتیق یعنی، اولڈ ٹیسٹامنٹ تھی۔جہاں تک ہمارا موجودہ علم ہماری رہبری کرتا ہے، وہ اورخود ان کے حواری عہدنامہ عتیق کو اپنے لئے بالکل کافی خیال کرتے تھے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بیس سال بعد تک کسی کو نئی کتاب تدوین کرنے کا خیال نہ آیا اور جب خیال آیا تو عہد نامہ عتیق کانمونہ پہلے سے موجود تھا، اسی کو سامنے رکھ کر آہستہ آہستہ جدید عیسائی مذہبی لٹریچر کی داغ بیل ڈالی جانے لگی، جس نے رفتہ رفتہ عہد نامہ جدید کی صورت اختیار کرلی۔‘‘ (انسائیکلو پیڈیا برٹا نیکا: جلد ۳ ، ایڈیشن نمبر۱۱) ۱۹۱۷ء میں کیمبرج میں ایک لطیف مباحثہ ہوا، جس میں ڈین انگ نے ایک مضمون پڑھا ’’کیا یسوع مسیح موجودہ مذہب ِمسیحیت کابانی تھا؟‘‘ مباحثہ میں انگلستان کے تمام اکابر ومشاہیر پادری شریک ہوئے تھے اور سواے ایک دو کے سب کا اس امر پر اتفاق تھا کہ یسوع کو کبھی یہودی مذہب سے علیحدگی کا خیال تک بھی نہ تھا او رنہ ہی اس نے کوئی نیا قانون یا نئی کتاب و شریعت اپنے متبعین کے لئے چھوڑی۔ اس کی مفصل رپورٹ اخبار ٹائمز مؤرخہ ۱۰/ اگست ۱۹۱۷ء میں چھپی۔ اسکے مطالعہ سے دو حقائق کا انکشاف ہوتاہے: ایک تو یہ کہ سب مذہبی علماء کا اس پر اتفاق ہے، دوسرے یہ کہ کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ حقیقت نفس الامر کا کھلے الفاظ میں اظہار کرے۔